وزیراعظم عمران خان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بیان پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ حکومت کے اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں، تو بہت سے نقاد بھی سا منے آئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے قبل بھی مذاکرات ہوئے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے بطور چیئرمین تحریک انصاف اس وقت بھی مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ لیکن پھر جب جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر حملہ ہوا اور مذاکرات ناکام ہوئے تو ریاست نے باقاعدہ آ پریشن ضرب عضب کا اعلان کیا تھا۔ افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کا صفایا کیا گیا۔ ملک کے اندر سلیپر سیلز کا خاتمہ کرنے کے لیے آپریشن ردالفساد کیا گیا اور ایک طویل جنگ کے بعد ملک کے اندر امن لوٹ آیا۔
عسکری قیادت نے قوم کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے کامیابی سے اہداف حاصل کیے تو ہر پاکستانی نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کے بعد سول قیادت کو موقع ملا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اور شورش زدہ علاقوں میں بحالی امن کے لیے کام کریں۔ فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام ہوا تو بہت سے خدشات دم توڑ گئے۔ افغان سرحد پر باڑ سے شدت پسندوں کی سپلائی لائن کاٹی جا چکی ہے اور وزیرستان میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو چلا ہے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی ضروت کیوں پیش آئی اس کے مختلف پہلو ہیں۔ باری باری سب پر بات کرلیتے ہیں۔
گزشتہ ادوار کے مذاکرات اورموجودہ بات چیت میں کیا فرق ہے سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نہایت سادہ سی بات ہے۔ آپریشن راہ حق، راہ راست اور ضرب عضب وغیرہ سے قبل مذاکرات میں ریاست کی پوزیشن کچھ اور تھی۔ عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے جا بجا موجود تھے اور بہت سے مسلح گروہوں کی موجودگی مذاکرات کی کامیابی میں آڑے آرہی تھی۔ اب کی بار خیبر پختونخواہ سمیت ملک بھر سے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اور کسی بھی مسلح گروہ کا باقاعدہ نیٹ ورک قائم نہیں رہا۔
یہاں یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ عسکری آپریشن کے نتیجے میں بہت سے شدت پسند سرحد پار کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ وہاں کی جیلوں میں قید تھے جہاں ان کے دیگر گروہوں سے تعلقات بھی قائم ہوئے۔ اس کے علاوہ امریکا اور دیگر غیر ملکی قوتوں کے خلاف مزاحمت نے بہت سے مختلف الخیال گروہوں کو ایک ساتھ لڑنے پر مجبور بھی کیا۔ اب نیٹو اتحاد کے نکلنے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو چکی ہے جنہوں نے داخلی سطح پر امن و امان بھی قائم رکھنا ہے اور بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم بھی کروانا ہے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی سمیت بہت سے گروہ نئی افغان قیادت کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ سو ایسی صورتحال میں سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے شدت پسند اگر غیر مسلح ہو کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ یقیناً خوش آئند ہے۔
ہمیں وزیراعظم عمران خان کے اس و یژن کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ سے سیاسی حل کے حامی رہے ہیں۔ افغان طالبان جو امریکا کو انتہائی مطلوب تھے، وہ آپس میں مذاکرات کر سکتے ہیں تو یہی کوشش ہماری طرف سے ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پاکستان اہم کردار بھی ادا کر چکا ہے۔ اب اگر افغان طالبان کے توسط سے کچھ گروہ ہتھیار ڈال کر واپس اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں تو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ چند ایک گروپس نے تو باضابطہ جنگ بندی کا اعلان بھی کردیا ہے جس سے موجودہ مذاکرات کی کوششوں کی سنجیدگی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اگر یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے تو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں دیرپا قیام امن کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ ان حالات میں جب کہ بھارت سی پیک کے خلاف کسی بھی قسم کے گروہوں کی پشت پناہی کر کے عالمی قوتوں کے مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے تو ریاست پاکستان کا یہ فیصلہ نہایت دور اندیشی پر مبنی ہے۔ وہ تمام لوگ جو سرنڈر کریں انہیں قبول کر کے واپسی کا موقع دینے سے مکمل امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں بڑی حد تک ختم ہو جائیں گی۔ جس کے بعد سیاسی عمل سے حالات مزید بہتری کی جانب ہی جائیں گے۔
ہماری قومی قیادت کو اس پہلوپر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہو رہے ہیں تو پھر لبیک کو کالعدم قرار دینے سے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ایسا کرنا عوامی حلقوں کی تشویش کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ مسائل میں بھی اضافہ کرے گا۔ ناموس رسالتﷺ کی بات کرنے والوں سے پہلے بھی مذاکرات ہوچکے ہیں اور انہوں نے اس کی پاسداری بھی کر کے دکھائی ہے۔ مذاکرات اور سیاسی حل کا طریقہ کار مسائل کے دیر پاحل کا واحد طریقہ ہے، جس کے وزیراعظم خود بھی قائل ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کے ذریعے سے تمام طبقات تک پہنچا جائے۔ بالخصوص وہ لوگ جن کے متعلق وزیراعظم خودکہہ چکے ہیں کہ ہمارامقصد ایک ہی ہے کہ کسی بھی ملک میں یہ جرأت نہ ہو کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرے، صرف طریقہ کار کا اختلاف ہے۔ تو طریقہ کار کے اختلاف کو بھی حل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ گفتگو اور بات چیت ہے۔
اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہو ئے اس سے بھی آگے بڑھ کر مختلف شعبوں کی یونین بحالی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ یہی حکمت عملی اپنا کر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی یونینز بحال ہوں تو مزدور منافع میں اپنے حق کو مکمل وصول کر سکیں گے۔ یہ عمل معاشرے کے نچلے طبقات کو سرمایہ داریت کے جبرو استحصال سے محفوظ رکھنے کا باعث بھی بنے گا۔ مزدور یونینز بحال ہوئیں تو مزدور کو اس کی محنت کا صلہ ملے گا اور بحال کروانے والوں کو دعائیں۔ اسی طرح سٹوڈنٹ یونینز کی طرف بھی کرم فرمائی کی ضرورت ہے۔ سٹوڈنٹس یونینز بحال ہوں تو ان کی نرسری سے مستقبل کی قیادت میسر آ سکے گی۔ اور ایک خاص کلاس کی بجائے ہر طبقے کے لوگوں کو عوام کی نمائندگی کا موقع میسر آئے گا۔
مذاکرات اور بات چیت کی کوششیں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہونی چاہئیں۔ کیونکہ اگر یہ بار آور ہوئیں تو اس کے ثمرات سے نہ صرف ہمارا ملک بلکہ پورا خطہ ترقی کرے گا۔