ویسے تووطن عزیز میں حالات ہر وقت غیر معمولی رہتے ہیں لیکن گزشتہ دو تین ہفتوں سے معاملات ڈرامائی انداز میں پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ایک کے بعد دوسرے معاملے میں الجھتے جا رہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے، عمران خان اس صورت حال کی وجہ سے سیاسی شہید بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا کام ہو سکتا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عمران خان نے مافیا کے خلاف بھرپور جنگ کی لیکن سسٹم نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ عمران خان ذاتی طور پر کسی مالی بدعنوانی میں ملوث نہیں لیکن افسوس اِس بات پہ ہے کہ ان کے اردگرد ایسے لوگوں کا جمگھٹا ہے جو نہ تو دیانت دار ہیں نہ ہی اتنی فہم و فراست رکھتے ہیں کہ ملک کو درپیش طوفانوں سے کشتی کو باہر نکال سکیں۔
مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے، غریب کا سانس لینا مشکل ہے۔ بجلی، تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے تحریک انصاف کے ان کارکنوں کو بھی خان سے باغی کر دیا ہے جو 2018 میں ان کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ ایسے میں فوج کے اندر تعیناتیوں اور ترقیوں کے معاملات میں بے جا حکومتی مداخلت اور بعض معاملات میں غیر معمولی تاخیر نے حالات کو انتہائی مشکل مرحلے میں ڈال دیا ہے۔ جو گفتگوبند کمروں میں ہوتی تھی اْسے کور کمیٹی، کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں موضوع گفتگو بنایا گیا۔ ظاہر ہے جب اتنے بڑے فورمز پر اس طرح کی گفتگو ہو گی تو جملہ معترضہ بھی ادا ہو سکتے ہیں، جو جلتی پر تیل کا کام کر سکتے ہیں۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی، کالعدم لبیک کے سربراہ کی نظر بندی کے معاملات پر عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کیا گیا۔ انہیں کمزور دلائل پر پابند سلاسل رکھنے کی کوشش نے ایسے عوامی ردعمل کو جنم دیا ہے جو مشیران باتدبیر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
جس تنظیم کو حکومتی ارکان غیر قانونی قرار دے کر اپنے تئیں نظام سیاست سے نکال چکے تھے وہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ان کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ اسیران کو ان کے کارکن بھلا چکے ہیں اور ناموس رسالتﷺ پر ان کے مطالبات کو ناقابل عمل سمجھ کر عوام یاد ماضی بنا چکی ہے۔ لیکن پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے ریویو بورڈز کے اسیر لیڈر کے حق میں فیصلوں نے جیسے آگ سی لگا دی۔ یتیم خانہ چوک سے تھوڑے فاصلے پر قائم چھوٹی سی مسجد رحمتہ العالمین کے سامنے بپھرے نوجوانوں کی موجودگی نے حکمرانوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ ان عاشقان رسول کو اشتعال دلایا جائے۔ کچھ ایسا کروایا جائے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ ایسا خطرناک گروہ ہے جو قانون کی پرواہ نہیں کرتا، لیکن ایسا نہ ہو سکا، امیرکی تربیت نے ایسا ماحول بنا یا جس میں ریاستی جبر اور غیر قانونی ہتھکنڈے پوری طرح بے نقاب ہو گئے۔
اس صورتحال نے ایک اور حقیقت کو بھی آشکار کیا کہ اگر جذبہ سچا ہو، عشق خالص ہو اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان مکمل ہو تو چڑیا کے ہاتھوں باز کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکمران جسے دہشتگرد قرار دے رہے تھے، اسے کوٹ لکھپت کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیاتھا اور یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ حکومتی طاقت کے سامنے سب بے بس ہیں۔ ملک میں صورتحال سنبھالنے کے لیے اسی کمرے کے باہر وزراء کو جانا پڑا۔ ایک 28 سالہ نہتا نوجوان جسے جیل کی کال کوٹھری میں پھینک دیا گیاتھا، اچانک ایک سیاسی بروکر کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ یقیناً یہ سب عشق رسول ﷺ کا کمال تھا۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے سندھ کا جمن فقیر یاد آ گیا جس کا ذکر ہمارے محترم جناب فاروق عادل صاحب نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا ہے۔ جمن فقیر کا تعلق سندھ کے قصبے قمبر سے تھا اور وہ پیشے کے اعتبار سے حجام تھا۔ سواری کے لیے ایک گدھا استعمال کرتا تھا، من موجی تھا سو کسی کی پروا ہ نہیں کرتا تھا۔ اس کی اس حالت اور کسی طرح کا مال و دولت کا لالچ نہ ہونے کی وجہ سے مشہور تھا کہ جمن اللہ کا فقیر ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو کسی نے جمن فقیر کا بتایا تو انہوں نے ملاقات کی خواہش کی۔ جمن کو جب پتہ چلا تو اس نے ملاقات کے لیے آنے سے انکار کر دیا۔ بھٹو صاحب ایک ذہین آدمی تھے اور اولیاء اللہ کا نہایت احترام کرتے تھے، اس انکار کو ایک فقیر کی ادا سمجھ کر وہ فوراً اس سے ملنے چلے گئے۔
جمن فقیر اپنے گدھے پر سوار تھا جب کہ بھٹو صاحب اپنی گاڑی میں ملاقات کے لیے گئے تھے۔ تھوڑی گفتگو کے بعد جمن فقیر نے بھٹو صاحب سے کہا کہ وہ اس کے گدھے کے ساتھ اپنی گاڑی تبدیل کر لیں۔ بھٹو صاحب جمن فقیر کی یہ خواہش سن کر مسکرائے اور تھوڑے توقف کے بعد اس بات پر راضی ہو گئے۔ جمن کو تھوڑی حیرت ہوئی اور اس نے بڑے پْر اسرار انداز میں بھٹو صاحب کے اردگرد کھڑے لوگوں کو دیکھا اور بولا نہیں مجھے یہ سودا منظور نہیں۔ تمہارے اردگرد تو پہلے یہ بہت سے گدھے موجود ہیں، تمہیں ایک اور نئے گدھے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی میں اپنے گدھے سے محروم ہونا چاہتا ہوں۔ جمن فقیر کی اس بات میں ایک بڑی حقیقت چھپی تھی کہ کسی بھی حکمران کو اپنے اردگرد ایسے لوگ رکھنے چاہئیں جو اپنے اپنے شعبوں میں مکمل مہارت رکھتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں اتنی جرات بھی ہو کہ وہ صحیح کو صحیح کہہ سکیں۔ اور اگر حکمران غلط فیصلہ کر رہا ہو تو ان میں اتنی جرات ہو کہ وہ اس کی بلا خوف وخطر نشاندہی کر سکیں۔
یہ واقعہ اس وقت گوش گزار کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ تحریک انصاف کے اندر ایک تاثر بن گیا ہے کہ عمران خان عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن بے بس ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو مافیا کی موجودگی ہے اور دوسری بڑی وجہ ایسے ممبران ہیں جو نہ صرف نااہل، بلکہ عقل و حکمت سے بھی عاری ہیں۔ ان خوش آمدانہ حرکتوں کی وجہ سے وزیراعظم کی پرفارمنس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں جو بات جمن فقیر نے ذولفقار علی بھٹو کو کئی سال پہلے کہی تھی۔ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں۔ اور یہ سب بتانے کے لیے ایک نئے جمن فقیر کی ضرورت ہے۔ لیکن بڑاسوال یہ ہے کہ وہ جمن فقیر لایا کہاں سے جائے، جو وزیراعظم کو یہ بتائے کہ وہ جلد نا اہل اور خوش آمدیوں سے اپنی جان چھڑائیں۔ ایسے لوگوں کو ساتھ لائیں جو نظر یاتی ہوں، سچے ہوں، ایمان دار ہوں اور درست فیصلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔ وگرنہ جو چیلنجز اس وقت ہیں وہ ایک ایسے طوفان کو جنم دے رہے ہیں جو ہر شے کو بہا کر لے جاسکتا ہے۔