حالیہ چند دنوں میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات پاکستان کے مستقبل پر دہائیوں تک محسوس کئے جائیں گے۔ سوشل میڈیا نے حالیہ تبدیلیوں کے حوالے سے عام آدمی کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے ہماری آنے والی نسلیں ہی یہ فیصلہ کر پائیں گی کہ یہ تبدیلیاں حکومت وقت کا درست فیصلہ تھا یا غلط۔
حکومت کے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کلی طور پر ایک خودمختار ادارہ بنانے کے فیصلے پر تبصرہ کرنے کے لیے اس کے ماضی سے باخبر ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کی سفارشات نے حکومتی فیصلے کو مزید متنازعہ بنا دیا ہے۔ اس حوالے سے میری کچھ ریٹائرڈ افسروں اور سٹیٹ بینک کے کچھ سابق گورنر صاحبان سے بات ہوئی۔ ان کی متفقہ رائے یہ تھی کہ سٹیٹ بینک کو تو پہلے ہی کافی حد تک خودمختاری حاصل تھی۔ مسئلہ بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کا ہے کہ وہ اس خود مختاری کو کس حد تک استعمال کرنا جانتی ہے۔ ان کا اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ کلی خودمختاری بھی بہتر انداز میں سسٹم میں رہتے ہوئے ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد جو 1999ء سے 2004ء تک پاکستان کی معیشت کو سنبھالتے رہے ہیں اور جو ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم کرنے، قرضوں کی واپسی کے انتظامات کرنے کے علاوہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کار کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں، جب ان سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے اس حکومتی اقدام کو نو آبادیاتی نظام کی طرف واپسی سے تعمیر کیا۔ اسی طرح یٰسین انور بھی سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے چین کے ساتھ مقامی تجارت کی پالیسی کے موجد ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو خودکشی قرار دیا ہے جبکہ زاہد رفیق جو فوریکس سے معاملہ کرتے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے بعد اب سٹیٹ بینک ریاستی ادارہ نہیں رہا۔ ایسی حکومت جو پہلے ہی بہت سے خودمختار اور نیم خود مختار اداروں کے بگڑے معاملات سنبھالنے میں جتی ہوئی ہے، سٹیٹ بینک کی مکمل خودمختاری کے بعد اس کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے تکنیکی امور سے قطع نظر بھی اگر کوئی پاکستان کی سیاسی معیشت کا تجزیہ کرنا چاہے تو 1960ء کے بعد پاکستان کی مختلف ادوار کی کابینہ کے فیصلہ پر سر چکرا جاتا ہے۔
حکومت کا سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب حکومت کی بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کی خواہش اچانک میسر ہوئی ہے۔ اچانک فیصلہ بھی امریکہ کے ایما پر کیا گیا ہے کیونکہ امریکہ بھارت کو اپنے اندرونی خلفشار سے نکلنے کے لیے وقت دینا چاہتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان مقبوضہ کشمیر کے موجودہ سٹیٹس پر سمجھوتہ کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ چین پہلے ہی لداخ میں گھسا ہوا ہے۔ خطہ میں چین کی بالادستی پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ بھارت کو اب دو محاذوں پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ پاکستان کی امن کی ترجیح بھارت کو ایک محاذ سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک پاکستان کے لیے سٹریٹجک اہمیت رکھنے کے ساتھ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا چین کی طرف جھکائو اور انحصار بڑھ رہا ہے اس نازک وقت میں حکومت کی امن کی خواہش کیا معنی رکھتی ہے؟ پاکستان کی اس سے بڑھ کر بے توقیری کیا ہو سکتی ہے کہ امریکہ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں مثبت کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرے جس کا مقصد ہے کہ کشمیر بارے عالمی قراردادوں کو مسترد کردیا جائے۔ شملہ معاہدہ کو دفن کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 خاتمے کو جائز سمجھا جائے جو چین کے لیے بھی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ مطالبات اس وقت کئے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ نے سفارتی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو ماحولیاتی کانفرنس میں بھی مدعو کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ تو عالمی منظر نامہ تھا، داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو سٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ حکومت سٹیل ملز کی نجکاری کا کام اسی ٹیم کے سپرد کیا ہے جو 2004ء میں سابق صدر مشرف کے گرد حصار بنائے ہوئے تھی آج بھی یہ لوگ وزیراعظم عمران خان کے مشیروں کے گروپ میں موجود ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان سٹیل ملز اپنے آغاز کے بعد سے 1980ء سے نجکاری کی فہرست میں شامل چلی آ رہی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ 1998ء میں جب حکومت نے سٹیل ملز کو اونے پونے داموں بیچنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے2006ء میں مداخلت کی تھی۔ اسی طرح 2012ء میں عدالت کو مداخلت کرنا پڑی مگر 2006ء کے بعد کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے نہ تو لوٹ مار میں ملوث عناصر کے خلاف تحقیقات کرنا مناسب سمجھا نہ ہی ذمہ داران کی نشان دہی ہو سکی۔ وزارت قانون نے اس حوالے سے کبھی بھی اپنا ہوم ورک نہ کیا اور معاملہ وزارت نجکاری کو بھیج دیا گیا جس نے غیر مصدقہ اطلاعات ای سی سی اور کابینہ کے آگے رکھ دیں۔ یہ اس نااہلی کی وجہ ہے کہ پاکستان سٹیل ملز مسلسل خسارے میں جا رہی ہے۔ اپنے قیام کے وقت سٹیل ملز کا پیداواری ہدف 1.1 ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا بعد میں جسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں 2.2 ملین ٹن کر دیا۔ تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان سٹیل ملز کا منصوبہ تاحال زیر تکمیل ہے۔ ایک ایسی کلی جو کبھی پھول نہ بن سکی۔
پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے کرتا دھرتا ماضی میں جہانگیر ترین تھے۔ پرویز مشرف کابینہ میں وزیر تھے، ان کی طرف سے سٹیل ملز کی فروخت کے حوالے سے جو لیٹر آف انٹرسٹ آیا وہ اس کا تعلق آف شور کمپنی سے تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے یہ معاملہ ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر حکومت کو سٹیل ملز ہر حال میں فروخت ہی کرنا ہے تو سٹیل ملز کی نجکاری کے حوالے سے معاملات سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں آگے بڑھائے جاتے کیونکہ اعلی ٰ ترین عدالت کے حکم کے بغیر نیلامی کا عمل شروع ہی نہیں کیا جاسکتا اور اس سے پہلے حکومت کو ہدایات کی روشنی میں تکنیکی فرانزک آڈٹ کروانا ہے مگر حکومت نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کئے۔ اگر حکومت سٹیل ملز کی نجکاری چاہتی ہے تو پہلے عدالتی حکم کے مطابق فرانزک آڈٹ کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے۔
اسی طرح ماضی میں پی آئی اے بھی پاکستان کا قابل فخر ادارہ رہا ہے جس نے محدود وسائل میں تیز رفتار ترقی کی مگر 1980ء کے بعد یہ قومی ادارہ بھی سیاسی مداخلت اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔ ورنہ یہی ادارہ تھا جس نے عالمی سروسز کے ذریعے دنیا میں اپنی پہچان بنانے کے علاوہ امریکہ اور فرانس میں ہوٹل بنائے مگر سیاسی مداخلت اور من پسند بھرتیوں کی وجہ سے پی آئی اے کی ترقی کا سفر تنزلی کی طرف گامزن ہوا اور پی آئی اے کے سائیڈ لائن کاروبار تو تباہ ہوئے ہی، خود قومی ایئر لائن بھی خسارے کی وجہ سے ملکی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئی۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی پالیسیاں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے گرد گھومتی رہی ہیں اور حکومتوں کی کوشش بجٹ خسارے اور قرض کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینے تک ہی محدود رہیں۔ ہماری حکومت کی ہمیشہ ہی پہلی ترجیح مقامی انڈسٹری اور معیشت کی ترقی کی بجائے برآمدات بڑھانے تک ہی محدود رہی۔