27 اکتوبر سے ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ایکشن ری پلے کا تیسرا منظرنامہ شروع ہونے والا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور مولانا خادم حسین رضوی کے "اسٹیج شو" کے بعد اب مولانا فضل الرحمن "تبدیلیوں میں تبدیلی" لانے کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہ کیا تھا، وہ ان انتخابات کو جعلی اور فراڈ کہہ کر ابتدا ہی سے تمام سیاسی جماعتوں کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا کہہ رہے تھے۔
دوسری طرف عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد سیاسی پختگی کا ثبوت نہ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن پر ذاتی حملے جاری رکھے جس سے فضل الرحمان کی سیاسی مخالفت بھی ذاتی مخالفت میں تبدیل ہو گئی۔ ایک زیرک اور دور اندیش سیاست دان کی حیثیت سے مولانا نے عمران خان کے خلاف لوہے کو مسلسل گرم رکھا۔ دوسری جانب عمران خان اور اس کی جماعت نے حزب اختلاف کے حوالے سے آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل چھڑکنے کا عمل جاری رکھا۔ ان عوامل کی بدولت مولانا فضل الرحمن عمران مخالف سیاسی جماعتوں کو اپنی حمایت کے لیے باآسانی آمادہ کر سکے۔
بعض تجزیہ نگاراس بات پر متفق ہیں کہ مولانا جو کچھ عرصہ پہلے تک نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا سیاسی "دم چھلہ" بنے ہوئے تھے، اب وہ "ڈرائیونگ سیٹ" پر آ چکے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ مولانا اس وقت پاکستانی سیاست کا مرکز ہیں بلکہ میڈیا کا بھی چمکتا ہوا ستارا بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف چند ہفتے پہلے تک مولانا کو دھرنے کے لیے کنٹینر اور حلوے کی دیگیں دینے کا اعلان کر رہی تھی، اب گھبراہٹ اور اضطراب میں مبتلا نظر آتی ہے۔ عمران خان مولانا کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ مولانا حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کے لیے وزیر اعظم کے استعفے کو پیشگی شرط قرار دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مولانا کو اس نہج تک لانے کی تمام تر ذمے داری عمران خان پر ہے۔ عمران خان نے سیاسی میدان کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا۔ اسی وجہ سے انھیں سیاسی معاملات نمٹانے میں مشکل کا سامنا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے آپ کھڑے تو ہو سکتے ہیں لیکن مقابلے میں دوڑ نہیں سکتے۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے اگر وقت پر فیصلے نہ کیے جائیں اور مخالف کو دیوار سے لگا دیا جائے تو سیاسی کھیل بگڑ جاتا ہے جب کھیل بگڑ جائے تو پوشیدہ قوتیں صرف نظارہ کرتی ہیں اور جس جانب اکثریت کا جھکاو ہو، مجبورا انھیں اپنا وزن اس پلڑے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہاں بات صرف سیاست تک ہی محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت اب تک ملک کی معاشی صورتحال کو بھی بہتر نہ بنا سکی ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی حکومت وقت کی ہرکوشش"لاحاصل" رہی ہے۔ عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے، تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو پابند سلاسل کرنے کے باوجود بھی حکومت کوئی رقم واپس لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ان وجوہات کی بنا پر پر حکومت سے عوام کا اعتماد بتدریج اٹھ رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن حالیہ انتخابات کے بعد بہت حد تک ملک کی پارلیمانی سیاست میں Non-entity بنتے جارہے تھے۔ انھوں نے آزادی مارچ کے نام پر ایسا"سیاسی کارڈ"کھیلا ہے کہ حکومت کے "چودہ طبق روشن" ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے کئی سرکردہ لیڈر اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ یہ آزادی مارچ صرف "نکے" کے لیے نہیں۔ اگر اس بار نادیدہ قوتوں نے عمران خان کی حمایت کی تو مارچ کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملکی معاشی صورتحال اور عمران خان کے انداز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اس آزادی مارچ میں کھل کر عمران خان کی ڈھال نہیں بنے گی۔ یہ مارچ صرف مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا نہیں ہے بلکہ اب تو نون لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسری جماعتوں نے بھی اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان نے آزادی مارچ کو کانٹر کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔
کئی دور اندیش اور اڑتی چڑیا کے پر گننے والوں کا کہنا ہے ہے کہ کچھ طاقتور حلقے بھی تبدیلی میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو اسکرپٹ کے مطابق کام شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کا ہر ذی شعور شہری اور سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے کبھی "گیلی جگہ" پاؤں نہیں رکھا، ان کا پراعتماد لہجہ اور عزم صمیم بہت کچھ کہہ رہا ہے۔
عمران خان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انھوں نے طاہر القادری کے ساتھ دھرنے کے ایام میں جب پارلیمنٹ، پی ٹی وی اور وزیراعظم ہاس پر چڑھائی کی تو یوں محسوس ہوتا تھا اب حکومت ختم ہو جائے گی، لیکن جب اس وقت کی تمام سیاسی قوتیں نے پارلیمنٹ میں اکٹھے ہوکر عمران خان اور طاہرالقادری کو للکارا تو امپائر کی انگلی کھڑی نہ ہوسکی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام سیاسی قوتیں یکجا ہو گئی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اور اگے بڑھتا رہا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر جب کہ ملکی معیشت اور سرحدوں کی صورت حال بھی پیچیدہ ہے۔
غالب امکان ہے کہ "تبدیلی میں تبدیلی"کا وقت وقت آچکا ہے۔ اﷲ کرے تبدیلی میں آنے والی تبدیلی ہمارے سیاسی نظام کو استحکام دے۔ اگر تبدیلی میں تبدیلی آئی تو ممکنہ منظرنامہ کیا ہو سکتا ہے۔
کیا سارا نظام لپٹ جائے گا؟
کیا نئے انتخابات ہوں گے؟
کیا قومی حکومت بنائی جائے گی؟
کیا ان ہاس تبدیلی ہوگی؟
یا کچھ اور؟
انشااﷲ اس پر آیندہ بات ہوگی۔