میں آج ایک ایسے واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نہ صرف یہ کہ قوت ایمانی اور دعا کے اثرات کا مظہر ہے بلکہ انسانی عقل کے لیے بھی حیران کن ہے۔ یہ پاکستانی ڈاکٹر چوٹی کا نیورالوجسٹ ہے۔ جس سے Appointment کے لیے کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ اندورن پاکستان کے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف پرواز کر رہا تھا کہ اس کا جہاز طوفانی بارش اورگہرے بادلوں کے درمیان آسمانی بجلی کی لپیٹ میں آ گیا۔ جہاز کے ایک انجن پرآسمانی بجلی گرنے سے پرواز کو جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ پائلٹ نے جہاز کو قریبی ائر پورٹ پر اتار لیا۔ جس ائر پورٹ پر جہاز اتارا گیا وہ ایک دور دراز کا پسماندہ علاقہ تھا۔
ڈاکٹر نے پائلٹ سے دریافت کیا کہ ہمیں یہاں کب تک انتظار کرناہو گا۔ پائلٹ نے بتایا کہ اس ائر پورٹ پر جہاز کی مرمت کے لیے کوئی ورکشاپ نہیں ہے۔ اس لیے یہاں سے جہاز کی پرواز میں کئی دن کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ پائلٹ نے یہ بھی بتایا کہ ائیر پورٹ سے ہماری منزل سڑک کے راستے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ڈاکٹر نے اپنی منزل تک سٹرک کے راستے جانے کے لیے گاڑی کرایے پر لی اور سفر شروع کر دیا۔
دوران سفر دھواں دھار بارش اور ژالہ باری نے پھر آ لیا۔ شدید ژالہ باری اور تیز بارش کی وجہ سے سفر جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ مجبوراً سڑک کے ساتھ ایک جھونپڑی کے پاس بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس عرصے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ ادائیگی نماز کے لیے ڈاکٹر نے جھونپڑی میں مقیم بڑھیا سے رابطہ کیا اور جائے نماز چاہی تو اس نے ڈاکٹر کو اندر بلا لیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر بڑھیا سے مخاطب ہوا تو اس نے قریب بچھی چارپائی پر ایک بچے کو لیٹے ہوئے دیکھا۔
ڈاکٹر نے بڑھیا سے پوچھا اس بچے کو کیا ہوا؟ بڑھیا نے بتایا کہ یہ میرا یتیم پوتا ہے جو ایسی تکلیف میں مبتلا ہے جس کا علاج یہاں کے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ تاہم یہاں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہاں سے بہت دور شہر میں ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہے جو اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے لیکن اس ڈاکٹر سے وقت لینے کے لیے کئی مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں چھ ماہ سے پہلے کا وقت نہیں مل سکتا۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ اور اسباب بھی نہیں کہ ہم اس شہر جا کر تمام اخراجات برداشت کر سکیں۔ بس اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں کہ ہم پر اپنا خصوصی کرم کرے، ہمارے لیے اسباب بنائے اور آسانیاں پیدا کرے۔ ڈاکٹر نے بڑھیا سے دریافت کیا اس ڈاکٹر کا کیا نام ہے۔
بڑھیا نے کہا کا اس کا نام Dr.Ishanہے۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور رونے لگا۔ بڑھیا گھبرا گئی اور پریشان ہو کر پوچھنے لگی کہ تمہیں کیا ہوا۔ ڈاکٹر بولا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری دُعا قبول کر لی ہے۔ دعا کی قبولیت کی وجہ سے ہی ہمارا جہاز طوفانی بارش میں گھر گیا جہاز پر بجلی گری اور اسے اترنے پر مجبور ہونا پڑا۔ شدید ژالہ باری اور بارش کی وجہ سے ہماری گاڑی تمھاری جھونپڑی پر آ کر رکی۔ میں ہی وہ ڈاکٹر ہوں جس سے تم اپنے پوتے کا علاج کروانا چاہتی ہو اور اب جب کہ میں تمھارے پاس پہنچ چکا ہوں تو بارش بھی رک گئی ہے۔ بڑھیا یہ سنتے ہی وفور جذبات سے رونے لگی۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور وہ کہنے لگا۔ اللہ جو چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ رب العزت کائنات کا مالک ہے۔ کوئی چیز اس کی دسترس سے باہر نہیں۔ یہ واقعہ قوت ایمانی کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ دُعا کی فضلیت اور اہمیت کا مظہر بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان اور یقین کامل سے دعا کے ذریعے مدد مانگنا ایک ایسا عمل ہے جس کے حیران کن نتائج سے اہل ایمان آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں دعا کا تصور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دعا، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجا اور استدعا کے ہیں لیکن مذہبی مفہوم میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ سے (عموماً دوران عبادت) کوئی فریاد کرنے یا کچھ طلب کرنے کے ہیں۔
کسی شخصیت کے لیے نیک تمنا اور بھلائی کی خواہش کے اظہار کو بھی دعا کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی بعض دعائیں بتائی ہیں کہ بندوں کو اس طریقے یا ان الفاظ میں دعا کرنی چاہیے۔ اسی طرح بعض پیغمبروں (علیہ السلام) نے جو دعائیں کی ہیں ان کا بھی قرآن میں ذکر ہے تاکہ عام مسلمان بھی ان موقعوں پر وہی دعا مانگیں۔ حدیث میں بھی بعض دعاؤں کا ذکر ہے جو آنحضرت ﷺ نے بعض موقعوں پر مانگی یا جن کے مانگنے کا حکم دیا۔
حدیث نبوی ہے کہ "دعا عبادت کا مغز ہے"۔ دعا کی عادت ڈالنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر کام کے لیے اللہ سے رجوع کرتا ہے۔ دعا مانگتے ہوئے اول و آخر درود شریف پڑھنا افضل ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے " ہر دعا معلق رہتی ہے جب تک دعا سے پہلے اور آخر میں درود و سلام نہ بھیجا جائے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا "سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرو۔ " (صحیح مسلم)۔
دعا قبول ہونے کی تین مختلف صورتیں ہیں۔ (1) اگر وہ دعا اْس شخص کے حق میں بہتر ہو تو اللہ اسکو ویسا ہی قبول کر کے پورا کر دیتے ہیں۔ (2) بعض اوقات انسان دعا مانگتا ہے اس پر کوئی پریشانی آنے والی ہو تو اللہ اس کی دعا کو ذریعہ بنا کر آنے والی پریشانی سے اسکو محفوظ کر دیتا ہے (3) کئی دعائیں نیکیوں کا خزانہ بن کر آخرت کے لیے جمع کر دی جاتیں ہیں۔
جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا "دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے خدا کے بندوں دعا کا اہتمام کرو"۔
دعا اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے، اپنے گناہو ں کی معافی طلب کر تا ہے، بخشش کی درخواست کر تا ہے، مختصر یہ کہ جو کچھ اس کے دل میں ہو تا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ دعا اور استغفار تین مرتبہ کرنی چاہیے۔ ابوداؤد میں کہ رسول اللہ ﷺ تین بار دعا فرماتے تھے۔