میں نے دو موقعوں پر انھیں روتے دیکھا۔ تقیسم ہند کے بعد ان کے ہمراہ مہاجر کیمپ دیکھنے گئے۔ ان کی مصیبت دیکھ کر جناح رو پڑے۔ میں نے ان کے رخساروں پر آنسو چمکتے دیکھے۔ میں نے پہلی مرتبہ ان کے آنسو 1928 میں دیکھے۔ کلکتہ کانفرنس میں انھوں نے بڑی خوبی اور قابلیت سے مسلمانوں کی وکالت کی مگر ان کے مطالبات رد کر دیے گئے۔
ایک شخص نے مخالفت میں کہا کہ انھیں مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ ان کے نمایندے نہیں۔ جناح کو اس میں بڑی سبکی محسوس ہوئی اور اپنے ہوٹل واپس چلے گئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کلکتہ کے لیے روانہ ہوئے تو فرسٹ کلاس کے ڈبے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولیِ، "جمشیدیہ افتراق کا آغاز ہے"۔ اور میں نے دیکھا ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔
ہیکٹر بولا ئیتھو اپنی کتاب "جناح دا فاؤنڈر آف پاکستان"میں لکھتے ہیں، "سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے با وجود ان کی ذہنی صلاحتیوں اور ظاہری ٹپ ٹاپ میں کوئی فرق نہ آیا۔ لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے کے الفاظ ہیں، جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے اور پریوی کونسل میں اپنے مقدمات کی پیروی میں وہ بڑی فہم و فراست کا ثبوت دیتے تھے۔
ان کی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے"۔ جناح کی شخصیت پر مونیٹگو نے سب سے گہری نظر ڈالی وہ کہتا ہے کہ "سب لیڈروں کے ساتھ جناح مجھ سے ملے۔ وہ ابھی جواں ہیں اور آداب محفل سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔ انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ان کا منصوبہ کلیتاً منظور کیا جائے۔ میں جناح کی بحث سن کر بہت تھک گیا تھا اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی، بحث میں الجھانے کی کوشش کی۔ مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح نہایت قابل شخص ہیں "۔
گاندھی نے کہا کہ میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی طاقت مسٹر جناح کو نہیں خرید سکتی۔ بی جے پی کے لیڈر جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں محمدعلی جناح کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے رہنماء تھے۔
جن دنوں جناح لندن میں وکالت کرتے تھے۔ ان کے دفتر کے متصل ایک انگریز وکیل مسٹر ٹی ڈبلیو ریمزکا دفتر تھا۔ یہ صاحب بھی وہاں وکالت کرتے ہیں۔ انھوں نے جناح کی لندن سے مراجعت کا حال یوں بیان کیا:مجھے وہ دن یاد ہے جب جناح نے میرے دفتر ا ٓ کر مجھے بتایا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔
ان کے خوبصورت اور شاندار فرنیچر پر بہت سے وکیلوں کی نظر تھی۔ وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔ فرنیچر میں میہوگنی کی چند بڑی خوبصورت چیزیں تھیں اور ایک وکیل نے جناح سے کہا۔ وہ انھیں خریدنا چاہتا ہے۔ جناح نے جواب دیا۔"مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم یہ سب لے لو۔ میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان واپس جا رہا ہوں "۔
واپس آتے ہی محمد علیؒ جناح نے ہندوستان کی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو متحد کیا اور دو دھاری تلوار بن کر ہندو قیادت اور فرنگیوں کے عزائم کا مقابلہ کیا۔ ان کے تحت الشعور میں یہ فکر تھی کہ ہندو، مسلم اب ایک مملکت میں باہم متحد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی اسلام سے محبت، اس بیان سے صاف ظاہر ہے جو انھوں نے مسلم لیگ کراچی کے 1943 کے اجلاس میں دیا، "وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے؟ جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ چٹان، لنگر، خدا کی کتاب قرآن کریم ہے، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد ہو گا، ایک خدا۔ ایک رسولﷺ، ایک کتاب، ایک امت"۔
تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونے والی دونوں ریاستوں بھارت اورپاکستان میں خطے کی سیاست کی نئی راہیں متعین ہوئیں اگر چہ یہ تقسیم دو قومی نظریے کی بنیا د پرہوئی مگر اس سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا نیا توازن سامنے آیا۔ آج کا ایٹمی پاکستان دنیاکے نقشے پر مضبوط، سیاسی، دفاعی اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کی پہچان رکھتاہے۔ معاشی میدان کے بدلتے تقاضوں میں پاکستان کی اہمیت دنیاتسلیم کررہی ہے اورپاکستان، پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی کامحو ربن چکا ہے۔
قائداعظم نے نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا، "یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے اور ہماری کوشش صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں مادی فوائد حاصل ہوں بلکہ یہ تو مسلمانوں کی بقائے روح کے لیے حیات و ممات کامسئلہ ہے اور اسے سودے بازی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کا پورا احساس ہو چکا ہے، اگر ہم شکست کھائیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔
آئیے، اس ولندیزی ضرب المثل کو اپنا دستور العمل بنائیں، "جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا۔ اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مر جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا"۔
یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو انتقال کے تہتر سال برس بعد بھی زندہ باد کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو؟
خاک قبرش از من و تو زندہ تر