Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sahafat Ka Roshan Sitara Ghuroob

Sahafat Ka Roshan Sitara Ghuroob

بالآخر وہ کینسر کے مرض سے شکست کھا گئے ان کا وقت آگیا ان کو جانا ہی تھا۔ صحافت میں ان کا نام ان کے کام سے باقی رہے گا۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ لکھنے پڑھنے کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ عامل صحافی تھے، ہوا میں خبر کی آہٹ کو پہچان لیتے۔ سونگھ کر بتاتے تھے کہ خبر کا وزن کیا ہے۔ ان کی خبر سے متعلق معلومات تحقیق اور اس کے قاری کو اس کے مصدقہ ہونے کا یقین یہی ان کی صحافت کا شاہکار چہرہ تھا۔ انہیں اللہ نے آنکھیں بھی دے رکھی تھیں اور دماغ بھی۔ ہماری صحافت نے ایک سے بڑھ کر ایک انمول ہیرے پید اکئے۔ جناب یوسف صدیقی، جناب احمدعلی خان اور جناب نثار احمد زبیری جیسے ایڈیٹرز بھی دیکھے۔ جوہم جیسے صحافت کے طالب علموں کے لئے انسپائریشن کی علامت تھے۔ ہمیں جناب میر خلیل الرحمن، جناب مجید نظامی اور جناب حمید ہارون جیسی قابل قدر شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے شورش کاشمیری کے الفاظ کے تیراندازی بھی دیکھی اور حبیب جالب کی شاعری سے اٹھتی ہوئی حرارت بھی محسوس کی۔ عبدالحمید چھاپرا کی خبر اْچکنے کی صلاحیت بھی اور شاہین صہبائی سے خبر کو آراستہ پیراستہ کرنے کا فن بھی دیکھا۔

عارف نظامی کی بھونچال پیدا کر دینے والی خبروں کا کھوج لگانے کا طریقہ اور کامران خان سے پردوں کے پیچھے چھپے رازوں کو افشا ہوتے بھی دیکھا۔ ارشاد احمد حقانی کے قلم کی جادوگری بھی منو بھائی کے فقروں کا حسن مجیب الرحمن شامی کے جملوں اور الفاظ کی ترتیب، عبدالقادر حسن کی طغیانی جیسی نثر، ضیاء شاہد کی الفاظ کو ذہنوں میں متحرک کر دینے کی خوبی، ہارون ا لرشید کی باعلم گفتگو، عطاء الحق قاسمی کی تحریروں کا منتر، امجد اسلام امجد کی نثر میں شاعر ی اور شاعری میں نثر کا چسکا، حسن نثار کی لفظی گولہ باری، الیاس شاکر کی چٹکیاں لیتی تحریریں، منہاج برنا اور نثار عثمانی کی جرات مندی، ایک لمبی فہرست ہے۔ کچھ دوست مہربان، بزرگ دنیاسے رخصت ہوئے اور کچھ بقید حیات ہیں۔ اللہ سب کو سلامت رکھے۔ اب رحیم یوسفزئی کا سفر زندگی تمام ہوا۔ اس قدکاٹھ کے لوگوں میں مجھے آج بھی وہ نمایاں نظر آرہے ہیں، ان کی علمی قابلیت افغانستان اور صوبہ خیبر پی کے کی تما م تر قبائلی اکائیوں کے متعلق ان کی حیران کن معلومات ان علاقوں کی مقتدر شخصیات کے ساتھ ان کا میل ملاپ، تعلقات اور ربط ضبط۔ پھر ان کی خبرمیں کتنا تھرل کیوں نہ ہو۔ اس میں حقائق او ر سچائی غالب رہتی تھی۔ میں نے نہیں سنا کہ کبھی ان کی خبر کی تردید آئی ہو۔ اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری سے صحافیوں کی گفت و شنید کی محفل میں پہلی بار رحیم اللہ یوسفزئی سے ملاقات ہوئی۔

ایک ہی ہوٹل میں ٹہرائے گئے تھے اس لئے ان سے ان دو دنوں میں کافی گپ شپ کا موقع ملا۔ انتہائی نفیس اور بردبار انسان تھے۔ میں نے اندازہ کیا کہ وہ بولنے سے زیادہ سننے کو پسندکرتے ہیں۔ انہوں نے اردو اور انگلش جنرنلزم میں ایک طویل اننگ کھیلی۔ ساتھ ساتھ بی بی سی پشتو سروس سے بھی منسلک رہے۔ بین الاقوامی شہریت یافتہ ٹائم میگزین میں افغانستان کے حوالے سے گذشتہ کئی دھائیوں میں حقائق پر مبنی بڑے دلچسپ اور حیران کن معلوماتی مضامین لکھتے رہے۔ صحافتی سیاست میں بھی سر گرم رہے۔ انہوں نے ہر شعبے میں خود کو اپنی کارگردگی کے اعتبار سے بڑا متوازن رکھا، مذہبی انسان تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، اسلامی تاریخ پر گہری نظرتھی، ہرکسی سے محبت اور گرم جوشی والا تعلق رکھتے تھے۔ ساتھیوں سے تعلق کے لئے باہیں اور دل بھی فرش راہ رہتا۔ قومی اخبارات میں ان کے کالم اور ٹی وی چینلزپر ان کی تبصروں کی بڑی اہمیت تھی۔ وہ سوسائٹی کے ہر طبقے فکر میں عزت اور قدرو منزلت کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔

وہ ایک ایسے وقت میں زندگی سے منہ موڑ گئے جب افغانستان اپنی تاریخ کے انتہائی فیصلہ کن موڑ پرکھڑا ہے۔ چالیس برس تک یہ سر زمین جنگ کی بھٹی میں جھلس رہی تھی۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے ان تمام ادوار میں اس معاشرے کو دیکھا جہاں دنیا کی دو بڑی طاقتیں روس پہلے سوشلزم نافذ کرنے آیاتھا اور پھر بیس سال پہلے امریکی اس پسماندہ معاشرے میں مغرب کا جمہوری نظام نافذ کرنے آئے تھے۔ سوشلسٹ نظام کے نفاذ کی تمام کوششیں بھی ناکام ہو گئیں اور قبائلی معاشرے کو صنعتی سماج میں ڈھالنے کی امریکی کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں۔

اگر رحیم اللہ یوسفزئی زندہ ہوتے تو آج کے حالات میں اس بات سے اتفاق کرتے کہ اگر دنیا افغانیوں کی مددکیلئے نہیں آئی تو اس سر زمین ایک عظیم انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اور شاید وہ آج کے حالات میں اس سچائی کو بھی مان لیتے کہ افغانستان ایک ریاست نہیں بلکہ یہ قبائل کا وفاق ہے جس میں پشتون، ہزارہ، تاجک، ازبک اور ترکمان رہتے ہیں۔ لیکن دنیا ان سے یہ توقع کیو ں کر رہی ہیں کہ وہ فرانس اور جرمنی جیسی جدید حکومت تشکیل دیں۔ شاید رحیم اللہ یوسفزئی یہ بھی ضرورکہتے کہ کیا بھوکے اور بیمار سے یہ کہنا چاہئیے کہ اول وہ حسن کردار کا مظاہرہ کرے اپنے بارے میں اندیشوں کاسدباب کرے۔ اس کے بعد انہیں کھانے کے لئے خوراک اور بیماری کے لئے دوا عنایت کی جا سکتی ہے۔

وہ جوکچھ بھی کہتے لیکن آج ان کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی تحقیق، اپنے علم اور اپنے تعلقات سے ایسی اسٹوریز منظر عام پر لاتے جوحقیقت سے بہت قریب ہوتیں خصوصاًمغرب کی سمجھ میں آتیں اور جو حقیقتاً افغانیوں کی آوازہوتی۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے شاندار انسان اور ہمارے ملک کے اس نامور صحافی کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔