قومی وعوامی مفاد کے تحفظ کا پُر زوردعوی وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں شاید کسی اورلیڈ ر نے کیا ہو۔ بیانات کا جائزہ لیں تو ہمیشہ گمان ہوتا ہے کہ اب عوامی مفاد کے منافی کوئی بھی قدم اُٹھانے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے جلد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔
مصنوعی بحران پیدا کرنے اور من پسند پالیسی سازی میں ملوث ایلیٹ کیپچر"Elite capture "کا ہر منصوبہ اب ناکام بنا دیا جائے گا۔ ویسے دیگر کریڈٹس کیساتھ Elite capture کی ٹرم متعارف کروانے کا کریڈٹ بھی وزیراعظم عمران خان کا ہی ہے۔ ماضی میں جب کبھی بھی بجلی اورگیس کے نرخ بڑھتے تو عمران خان عوامی کے جذبات اور دکھوں کا احساس کرتے ہوئے فوراً حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے۔
ساتھ ہی وجہ بتاتے کہ حکمرانوں کی نااہلی اور بدعنوانی کے باعث عوام کو یہ بوجھ اُٹھاناپڑتا ہے۔ ایڈہاک ازم کا خاتمہ اور گڈ گورننس سے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی مگرتین سال گزرنے کے باوجود وزارت توانائی کا قبلہ تک درست نہیں ہونے دیا گیا۔ وزیراعظم نے مہنگی توانائی اور 2ہزار 500ارب روپے کے گردشی قرضے سے خلاصی حاصل کرنے کیلئے نجی شعبے سے وابستہ بہترین ماہر توانائی تابش گوہر کو ذمہ داری سونپی تھی۔
تابش گوہر نے بطور معاون خصوصی برائے پاور بہترین کاردگرگی کا مظاہرہ کیا تو وزیراعظم نے تمام تابش گوہر پیٹرولیم ڈویژن کا بھی اضافی چارج دیدیا۔ جون 2020میں بدترین پیٹرول بحران پیداہونے کے نتیجے میں ندیم بابر کو گھر بھیج دیا گیا، جن کے خلاف ایف آئی اے کی انکوائری جاری ہے۔ تابش گوہر نے اس عرصے کے دوران پاور اور پیٹرولیم کے شعبے میں مطلوبہ اصلاحات کا ایک مفصل پلان تیارکیا۔ عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا تو تابش گوہر Elite captureکا سامنا کرنا پڑگیا۔ اس مرتبہ چلا کہ ایسے عناصر صرف حکومت سے باہر نہیں بلکہ کابینہ میں بھی موجود ہیں جنہوں نے توانائی کے شعبے میں منظور نظر کمپنیوں کی خاطرپیٹرولیم ڈویژن کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کردئیے۔ مطلوبہ اہداف پھر بھی حاصل نہ ہوئے تو تین وزراء نے مل کر تابش گوہر کو راہ سے ہٹانے کی حکمت عملی بنائی۔ دراصل دو نئے ایل این جی ٹرمینلز کیلئے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے کچھ وزراء نے تابش گوہر کی بے جا مخالفت کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ انہی وزراء کی بے جا مخالفت کے باعث تابش گوہر نے ای سی سی اور توانائی کمیٹی کے کچھ اجلاس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ گذشتہ ماہ تابش گوہر نے وزیراعظم سمیت وفاقی وزیر توانائی، وزیر خزانہ، چئیرمین کابینہ کمیتی برائے توانائی کو خط لکھتے ہوئے پاور اور پیٹرولیم ڈویژن ریفارمز کا مکمل پلان پیش کیا تھا۔ اس خط کے بعد تابش گوہر نے اپنا کردار ایڈوائزری تک محدود کردیا تھا۔
تابش گوہر نے پاکستانی گیس صارفین سے پیشگی 300ارب روپے وصول کرنے کے باوجود نارتھ ساوتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا ٹھیکہ روسی کمپنی کو دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اپنایا تھا کہ یہ پائپ لائن ہر صورت پاکستان کی سرکاری کمپنیوں کو خود تعمیر کرنی چاہیے۔ وزراء اورآئل انڈسٹری کے بااثر گروپس کی مسلسل مخالفت کے باعث تابش گوہر سے پیٹرولیم ڈویژن کی ذمہ داری واپس لینے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ چار سرکاری بینکوں کی 28ارب روپے جبکہ ملکی تاریخ میں 54ارب روپے کی سب سے بڑی ڈیفالٹر کمپنی حیسکول کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر کو معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن تعینات کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اپنی سی وی میں حیسکول پیٹرولیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا ذکر نہیں کیا کیونکہ حیسکول پیٹرولیم سرکاری بینکوں کی نادہندہ ہے۔ حیسکول کمپنی کیساتھ انکی وابستگی ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھی۔ امید ہے کہ وزیراعظم کو حتمی منظوری کے وقت متعقلہ ادارے کی جانب سے حقائق پر مبنی رپورٹ ضرور پیش کی جائے گی۔ فیصلہ یہ ہواہے کہ تابش گوہر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور ڈویژن تک محدود کردیا جائے گا۔ 54ارب روپے کی نادہندہ حسیکول پیٹرولیم کو پارکو اور گو پیٹرولیم کی جانب سے خریدنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ سرکاری بینکوں نے پارکو آئل ریفائنری کی پیشکش کو ترجیحی لسٹ میں شامل کرلیا ہے لہذاماہ ستمبر میں بڑی پیش رفت متوقع ہے وحید احمد شیخ جنہوں نے بطور سی ای او حیسکول پیٹرولیم خدمات سرانجام دی ہیں، انہیں معاون خصوصی برائے پیٹرولیم تعینات کرواکر حیسکول پیٹرولیم کا اربوں روپے کا ڈیفالٹ کو انفراسٹرکچر کی فروخت سے معاملہ حل کروانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ایس ای سی پی کی تحقیقات کے بعد فوجداری کارروائی اور نیب کی کارروائی سے بچا جاسکے۔ حیسکول پٹرولیم کا کل قرضہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو دیے گئے حالیہ مالی بیانات کے مطابق 54 ارب روپے ہے اور نیشنل بینک آف پاکستان 16 ارب روپے سے زائد کے قرض کا نادہندہ ہے۔ حیسکول کی بینگ وار قرض کی ذمہ داری سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی نے حبیب بینک لمیٹڈ کو 4 ارب 10کروڑ روپے، حبیب بینک میٹروپولیٹن 4.92 ارب روپے، میزان بینک لمیٹڈ 4.29 ارب روپے، عسکری بینک لمیٹڈ 4.07 ارب روپے، بینک آف پنجاب 3.98 ارب روپے کے قرضے ادا نہیں کیے۔ سندھ بینک لمیٹڈ 2.88 ارب روپے، فیصل بینک لمیٹڈ 2.071 ارب روپے، بینک آف خیبر 2.002 ارب روپے اور بینک الفلاح لمیٹڈ 1.80 ارب روپے ادا نہیں کئے۔
وزارت توانائی کی کارگردگی کا یہ عالم ہے کہ صدرمملکت عارف علوی نے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کے باعث قومی خزانے کو سالانہ 240ارب روپے سے زائد نقصان اور بلوچستان میں قلت مسئلہ حل کرنے کیلئے 13ستمبر کو اعلی سطحی اجلاس طلب کیاہوا ہے۔ گذشتہ سال جون میں پیڑول کی قلت پر قائم ایف آئی اے انکوائری کمیشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کے باعث قومی خزانے کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کی نشاندہی کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی مگر وزارت توانائی ایف آئی اے رپورٹ کے بعدبھی پیٹرولیم سیکٹر بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ظاہر ہے جب اصلاحاتی پلان فائلوں میں دب کر رہ جائیں تو پھر تبدیلی کا خواب دیکھنا بھی حماقت ہوگی۔ اصلاحاتی منصوبے فائلوں میں گُم رہیں درحقیقت Elite capture کی یہی کامیابی اور متعلقہ وزارت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔