وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ دیانتدار قیادت کے ذریعے سرکاری کمپنیوں کا اربوں روپے کا خسارہ منافع میں بدل دیا جائے گا۔ اگرچہ بیشتر سرکاری کمپنیوں میں تین سال گذرنے کے باوجود ایڈہاک ازم ختم نہیں ہوسکا تاہم 31اگست کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں "Federal Footprint: Annual SOEs Report"کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ وزارت خزانہ کے ماتحت عملدرآمد و معاشی اصلاحات یونٹ نے تیارکی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 85سرکاری کمپنیوں کو143ارب روپے سالانہ خسارہ کے سامنا ہے۔ وزیراعظم نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد خسارے سے دوچار ٹاپ ٹین کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ ان کمپنیوں کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی آڈٹ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے فرانزک آڈٹ اور47سال سے جاری آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آڈٹ کے باوجود اربوں روپے منافع کمانے والی سرکاری کمپنیاں خسارے کے اندھے گڑھے میں کیوں جاگریں۔ کیا صرف آڈٹ ہی ان مسائل کا حل ہے یا تسلسل کیساتھ منافع کمانے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والی کمپنیوں کی کیس سٹڈی جاننے کی ضرورت ہے۔ ایسی سرکاری کمپنیاں جو تما م تر نامساعد حالات کے باوجود اربوں روپے منافع اور ہزاروں افراد کو روزگار بھی فراہم کررہی ہیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی اور جدیدپارکو آئل ریفائنری نے 2000ء میں آپریشن شروع کیا۔ 886 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے مظفر گڑھ کے قریب محمود کوٹ میں مڈکنٹری ریفائنری حکومت پاکستان اورابوظہبی کے مابین ایک جوائنٹ وینچر کے تحت قائم کی گئی۔ ا س ریفائنری میں حکومت پاکستان 60 فیصد شیئرز جبکہ ابوظہبی40 فیصد شیئرز کی ملکیت رکھتا ہے۔ پارکوریفائنری کی صلاحیت 1لاکھ بیرل یومیہ تھی تاہم ملکی طلب کے پیش نظر ریفائنری کی اپ گریڈیشن اور ممکنہ توسیع کا کام بھی ماضی میں جاری رکھا گیا جس کے نتیجے میں آج یہ ریفائنری 1لاکھ 20لاکھ ہزار یومیہ خام تیل سے پیٹرولیم مصنوعات تیارکرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔ اگرچہ ماضی میں یہ ریفائنری اقرباپروری اور سیاسی اثرورسوخ کی بھی نذررہی مگرریفائنری کے ساتھ وابستہ باصلاحیت افسران نے دیگر سرکاری کمپنیوں کی طرح پارکو آئل ریفائنری کوخسارے اور بدانتظامی کی کھائی میں گرنے سے بچائے رکھا۔ عالمی مارکیٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی کوالٹی کو اپ گریڈ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور آج پاکستان کی دیگرچار آئل ریفائنریز کے مقابلے میں صرف پارکو یورو تھری سٹینڈرڈ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات تیار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ یورو فائیو سٹینڈرڈ کے حصول کیلئے 1ارب ڈالر کی لاگت سے ریفائنری کو اپ گریڈ کرنے کی پیشگی حکمت عملی بھی تیاری کی جاچکی ہے۔ یوروفائیو معیار کو حاصل کرنے کیساتھ پارکو ریفائنری فرنس آئل کو بھی پیٹرولیم مصنوعات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پارکو ٹیم کی موثر حکمت عملی کے باعث LEDسے پاک پیٹرول کی تیاری کے خواب کو تعبیر کی شکل دی گئی۔ LEDایسا خطرناک مادہ ہے جو کینسر جیسی خطرناک مرض کا موجب بنتا ہے۔ پارکو آئل ریفائنری اپنی جدت اور قابل بھروسہ استعداد کے باعث فائٹر جیٹس کیلئے فیول تیار کرکے ملکی دفاع میں بھی کلیدی کردارادا کررہی ہے۔ 550ٹن یومیہ ایل پی جی کی پیداوار سے عوام کو ماحول دوست ایندھن فراہم کرنے میں پارکو پیش پیش ہے۔
ایل پی جی کی تسلسل سے پیداوار کے باعث پائپ گیس سے محروم عوام کو ایندھن کی سہولت میسر ہے جس کے باعث کروڑوں درختوں کی کٹائی کا راستہ رک گیا۔ پارکو کراچی سے محمود کوٹ تک دو پائپ لائنوں کے ذریعے خام تیل اور ہائی سپیڈ ڈیزل ترسیل کررہی ہے جس کے باعث قومی شاہراوں کو ہزاروں آئل ٹینکرزکے استعمال اور ماحول کو محفوظ بنانے میں مدد ملی اور ترسیلی اخراجات میں بھی اربوں روپے کی بچت ہوئی۔ اب پارکو یکم اکتوبر سے کراچی سے محمود کوٹ، محمود کوٹ سے ساہیوال او رساہیوال سے شیخوپورہ تک نئی سرمایہ کاری کے ذریعے ڈیزل کیساتھ پائپ لائن میں پیٹرول بھی ترسیل کرنے کا اہتمام کرلیا ہے۔ اس اقدام سے پارکو کے ریونیو میں اضافہ جبکہ شاہراوں پر ٹینکرکی تعداد میں کمی اور پیٹرول کے ترسیلی اخراجات کم ہونے سے عوام کو سالانہ اربوں روپے کا فائدہ ہوگا۔ بہترحکمت عملی اور خلو ص نیت سے کی جانے والی کاوشیں ہمیشہ رنگ لاتی ہیں۔ پارکومیں تجربہ حاصل کرنے والے افراد بیرون ملک عالمی کمپنیوں میں پرکشش مراعات پر خدمات سرانجام دے کر پاکستان کا نام روشن اور زرمبادلہ بھیج کر وطن عزیز کی خدمت کررہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب۔ سرکاری اداروں میں ایڈہاک از م کا خاتمہ کیجئے۔ آڈٹ اور ایف آئی اے کی تلوار لٹکانے کی بجائے باصلاحیت افراد کا تقرر کیجئے۔ محب وطن پاکستانیوں پر اعتماد کیجئے پھر دیکھئے ہر سرکاری کمپنی اربوں روپے خسارے کو اربوں روپے منافع میں کیسے بدلتی ہے۔
وزارت ہائوسنگ نے وزیر اعظم پیکج 2006کے تحت گریڈ22کے سرکاری افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو دوسرے پلاٹ کی فراہمی روکنے کیساتھ نئی پالیسی تیار کرلی ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی سے پلاٹ کے حصول کیلئے سپریم کورٹ کے ججز اور ملازمین کی نامزدگی چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری سے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کی جائے گی۔ اسلام آبا د ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے حوالے نامزدگی کی منظوری چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی جائے گی۔ نامزدگی کی تفصیلات رجسٹرا ر اسلام آباد ہائی کورٹ اتھارٹی کو فراہم کریں گے۔ وفاقی حکومت کا یہ انتہائی احسن اقدام ہے جس سے برسوں سے محروم سرکاری افسران کا اسلام آباد میں اپنے گھر کا ادھورا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔