تربیتِ اولادمعاشرے کا نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ درحقیقت وہ بنیاد ہے، جس پرگویا عمارت کو تعمیر ہونا ہے۔
اَساس اگردُرست اور بہترین ہوگی تو لامحالہ عمارت بھی عمدہ اورقابلِ توصیف ہوگی۔ اگر والدین اپنی اولاد کی تربیت پر خاص طور پر توجّہ دیں تو یقیناً بگاڑ کے بہت سے اسباب منجملہ وراثت، حرا م لقمے وغیرہ کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
گویا والدین اگر اپنے بچّے کو شکمِ مادر میں حرام لقمے سے نہ بچا سکے ہوں اور انھیں وراثت میں بُرائیوں کے منتقل ہونے کا خدشہ ہو تو اب بھی اگر توجّہ کریں تو اپنے بچّے کی زندگی کا رُخ سعادت مندی کی طرف موڑ سکتے ہیں، یعنی اب انھیں مناسب ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ اب انھیں غلط دوست اور بداَخلاق ساتھی سے بچانا ہوگا، یعنی اب انھیں بے دِین معلّم اور اُستاد سے محفوظ رکھنا پڑے گا۔ جس طرح بھوک اور پیاس بچّے کا پہلا احساس ہوتا ہے، اسی طرح حقیقت جوئی اور کسی شے کو حاصل کرنا بھی اُس کی حِس شمار کی گئی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ حقیقت جوئی کی حِس کو غلط ماحول سے بچا کر صحیح رُخ دیں۔ مذہب اور دِین پرستی انسان کی فطرت کا حصّہ ہے، لہٰذا والدین کو شروع ہی سے پیار و محبت کے بھرپور انداز میں نماز، روزہ، قرآن اور دیگر عبادتوں کا شوق دلانا ہوگا تاکہ وہ خود بہ خود اپنے آپ کو نماز اور دیگر عبادتوں کا عادی بنائے۔
والدین کو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بچّے کی تربیت میں دِین سب سے بڑا یاور و مددگار ہے اور بچّوں کی تربیت سے متعلق نِکات اور باریکیاں اِتنی زیادہ ہیں، جن کی تفصیل کے لیے واقعتاً ضخیم کتابوں کی ضرورت ہے، پھر بھی والدین کی توجّہ کے لیے چند اہم نِکات یہاں تحریر کیے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ والدین خصوصاً ماں اِن نِکات پر غور کرے اور انھیں اپنا شِعار بنائے۔ اولاد کی تربیت کے لیے پچاس اَخلاقی نِکات جو احادیث و روایات سے اخذ کیے گئے ہیں، درج ذیل ہیں :
(1) تحفہ دینا ہو تو پہلے بیٹی کو دیا جائے۔
(2) بچّوں سے بچّوں کے انداز میں کھیلا جائے۔
(3) روایت ہے کہ "اپنے بچّوں کو اُن کے رونے پر نہ مارو، کیوں کہ اُن کا رونا کبھی اﷲ کی وحدانیت کی شہادت اور کبھی شہادت و گواہیِ رسولِ اکرم آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے اور کبھی ماں باپ کے لیے دُعا ہے۔"
(4) روایت ہے کہ " اپنے بچّوں کو بوسہ دو، کیوں کہ اُن کو بوسہ دینا بہشت میں درجات کی بلندی کا سبب ہے۔"
(5) بچّوں کو پہلے سلام کرکے اُن کی شخصیت کو اہمیت دو۔
(6) بچّوں کا اُن کے بچکانہ کاموں پر مذاق نہ اُڑاؤ اور اُن کے کاموں کو احمقانہ نہ کہو۔
(7) بچّوں پر زیادہ روک ٹوک نہ کرو۔
(8) بچّوں کا احترام کرو، چاہے اپنے کاموں کو ترک کرنا پڑے۔
(9) جو وعدہ کرو اُس کو ضرور پور ا کرو۔
(10) اُن کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ، بڑوں کے چہروں پر پیار بھری مسکراہٹ سے بچّے بھی بے حد خوش ہوتے ہیں۔
(11) بچّوں کو عادت ڈالوائیں کہ اچانک بڑوں کے کمرے میں داخل نہ ہَوں بلکہ اجازت لے کر آئیں۔
(12) جب بیٹی چھے سال کی ہوجائے تو اُسے نامحرموں کی گود میں نہ بیٹھنے دیں۔
(13) بچّیوں کو نیم عریاں کپڑے پہنانے سے گریز کریں۔
(14) بچّوں کو نماز کی طرف رغبت دِلائیں۔
(15) کوشش کریں کہ بچّے ڈِھیٹ نہ بنیں۔
(16) دُوسروں کے سامنے بچّوں کی بے عزتی (ڈانٹ پھٹکار) نہ کریں۔
(17) بچّوں کے نیک اور صالح بننے کی ہمیشہ دُعا کریں۔
(18) اُن کی فکری سَمت کو بچپن ہی سے راست اور مثبت رکھنے کی سعی کریں۔
(19) بچّوں کی جائز خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
(20) بچّوں کو پُرمحبت اور باایمان بنانے کی پُرخلوص کوشش کریں۔
(21) اُنھیں برداشت اور درگزر کی اپنے عمل سے تاکید کرتے رہیں۔
(22) بچّوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کریں۔
(23) ڈرا کر تربیت نہ کریں، کیوں کہ ڈرانے دھمکانے سے بچّے نفسیاتی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(24) دل لگا کر، توجّہ کے ساتھ پڑھنے لکھنے کی تلقین کریں۔
(25) بچّے پر نوازش اور محبت نچھاور کریں۔
(26) بچّوں کو گناہ سے نفرت دِلائیں اور نیک کاموں کی ترغیب و شو ق پیدا کرائیں۔
(27) چھے سال کی عمر سے بچّوں کے بستر الگ کردیں چاہے دو بہنیں ہی ہَوں۔
(28) بچّے کو گھر میں آزادی سے کھیلنے دیں، لیکن گھر سے باہر کھیلنے پر اُسے مناسب باتیں سمجھائی جائیں، لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اُسے فقط گھر میں قید کردیا جائے۔
(29) بچّوں کے سوالات کا ضرور جواب دیا جائے، یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوجائیں۔
(30) بچّوں کے لیے انبیائے کرام ؑاور ائمہ عظّام ؓ کے چھوٹے چھوٹے قصّے، واقعات وقتاً فوقتاً بیان کیے جائیں۔
(31) بچّوں میں خود اعتمادی کی صلاحیت کو فروغ دیں۔
(32) اﷲ کا خوف بچّوں کے دل میں اُجاگر کریں اور اُن پر یہ بھی واضح کریں کہ وہ اپنی مخلوقات سے بے حد پیار کرتا ہے۔
(33) اگر بچّہ زیادہ شرارتی ہے تو مطمئن رہیں کہ بچّہ بڑا ہوکر بہت ذہین نکلے گا، بس اُس کی شرارت کو برداشت کریں اور کوشش کریں کہ اُس کی شرارتوں سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
(34) بچّوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا پابند کریں اور نو سال کی عمر سے روزے کی پابندی کرائیں۔
(35) اپنے بچّوں کو قرآنِ کریم سے اُنسیت دِلائیں اور کوشش کریں کہ جتنی بچّے میں صلاحیت ہے، اُس کے مطابق ہی سہی اُس کو چند سورے ضرور حفظ کرائیں، کیوں کہ قرآنِ کریم نور ہے اور جہاں قرآنِ کریم آجاتا ہے، وہاں شیطان کا گزر نہیں اور قرآنِ مجید کی ہزارہا خصوصیات و کمالات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے سے حافظہ قوی ہوجاتا ہے اور انسان کی غیر معمولی ذہانت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ حفظِ قرآن، قرأتِ قرآن اور قرآن پر عمل کی طرف توجّہ دِلائی جائے۔
(36) اپنے بچّے کا کسی دوسرے بچّے سے موازنہ نہیں کریں اور بچّے کا دِل نہیں دُکھائیں کہ جیسے اکثر والدین بچّے سے کہتے ہیں کہ "فلاں کو دیکھو، کتنا مؤدّب ہے اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔"
(37) پانچ سال سے کم عمر بچّوں کو نہ کہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، کیوں کہ اِس عمر تک بچّے کو جھوٹ کا پتا ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ خیال کررہا ہوتا ہے کہ ایسا ہوگیا ہے اور اپنی طرف سے بول رہا ہوتا ہے۔ اُسے آہستہ آہستہ سمجھائیں۔
(38) اکثر بچّے موت کے لفظ سے ڈرتے ہیں، لہٰذا اِس حقیقت کو آسان انداز سے بچّے کو بتایا جائے۔
(39) بچّوں کی چھپی ہوئی خداداد صلاحیتوں کو اُبھارا جائے اور اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
(40) بچّوں کو بہت زیادہ مادّیات (دُنیاوی چیزوں ) کی طرف راغب نہ کیا جائے اور نہ ان سے بالکل دُور کردیا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ کچھ چیزوں کو دیا جائے اور کچھ سے روکا جائے۔
(41) جدیدترین ایجادات کے استعمال میں اعتدال اور توازن کا ہمیشہ خیال رکھنے کی تلقین کریں۔
(42) ادب کا ہمیشہ خیال رکھنے کی تاکید کرتے رہیں۔
(43) بچّوں کو دُوسرں کی چیزوں کے استعمال سے روکا جائے اور انھیں عادت ڈالی جائے کہ بغیر اجازت کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔
(44) امانت داری کیا ہے، بچّے کو چھوٹی چھوٹی مثالوں سے امانت اور اُس کی حفاظت کے بارے میں بتایا جائے۔ مثلا ًبچّہ کسی کی کاپی یا پنسل امانتاً لیتا ہے تو وہ کیسے اُس کی حفاظت کرے اور اُسے واپس کرے۔
(45) بچّے میں نظم و ضبط اور وقت کی اہمیت کی عادت ڈالی جائے۔
(46) مائیں بچّوں کے کھانوں کی فرمائشوں کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ بچّہ فقط مخصوص اور چند غذاؤں کے کھانے کا عادی بنے، بلکہ اُسے باور کرائیں کہ تمام غذائیں اﷲ کی نعمت ہیں اور اُسے ہر کھانا کھانے کی عادت ڈالیں۔
(47) بچّوں کو حق اور سچ کی پاس داری اور وفاداری کا درس دیتے رہیں۔
(48) یہ تمام نِکات اُس وقت اثر پزیر ہوں گے جب ماں باپ خود اِن پر عمل پیرا ہوں گے۔ پس پہلا قدم والدین کا خود سازی ہے یعنی اپنی تربیت ہے، اپنی اصلاح ہے۔ جب ماں باپ اَخلاق کا بہترین نمونہ ہوں گے، تمام عمدہ ترین انسانی صفات کا مجموعہ ہوں گے، تب ہی وہ اپنے بچّوں کی راہ نمائی کرسکیں گے، ورنہ ہم کتنا بھی چاہیں بچّہ نیک بنے اور خود نیک صفات سے محروم و عاری ہوں تو بچّے پر کچھ بھی اثر نہیں ہوگا۔
(49) بچّوں کی تربیت اور انھیں واجبات کی تعلیم دینا والدین پر فرض ہے اور جو والدین اِس فرض کو ادا نہیں کرتے، انبیاء ؑو ائمہ ؓ نے ان کو ناپسند اور موردِ ملامت قرار دیا ہے۔
(50) پس ہم سب مل کر کوشش کریں کہ اپنے بچّوں کی تعلیماتِ اسلامی کی روشنی میں تربیت کریں تاکہ وہ محبِ اہلِ بیتؓ بنیں اور اپنی دُنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ اپنے دِین و مذہب کی تبلیغ کرسکیں نیز اپنے والدین کی بخشش کا ذریعہ قرار پائیں۔