Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tauba O Istighfar

Tauba O Istighfar

دینِ مبین اسلام میں توبہ و استغفار کی نہایت گراں قدر اہمیت اور اِفادیت ہے یہ عربی زبان کا لفظ ہے اِس کے معنی بخشش چاہنا، طلبِ مغفرت، گناہ بخشوانے کی خواہش اور معافی طلب کرنے کے ہیں۔

قرآنِ کریم، سورۂ آلِ ِ عمران میں اﷲ رحمن و رحیم نے اِس ضمن میں یوں راہ نمائی فرمائی:

مفہوم " اور وہ لوگ جب (اتفاقاً) کوئی بُرائی کر بیٹھتے ہیں، یا آپ اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں تو اﷲ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔"

سورۂ نساء میں ہم سب کو یہ ہدایت ملتی ہے، مفہوم : " اور جو شخص کوئی بُرا کام کرے، یا (کسی طرح) اپنے نفس پر ظلم کرے، اس کے بعد اﷲ سے اپنی مغفرت کی دُعا مانگے، تو اﷲ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا۔"

قرآن حکیم سے دُنیا جہان کو یہ ہدایت ملتی ہے، مفہوم: " یہی لوگ ہیں صبر کرنے والے، سچ بولنے والے (اﷲ کے) فرماں بردار (راہِ خدا میں ) خرچ کرنے والے اور پچھلی راتوں میں توبہ و استغفار کرنے والے۔" (سورۂ آلِ عمران)

استغفار کرنے سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس بارے میں یہ رُشد و ہدایت دیکھیے۔ مفہوم: "اور یہ بھی کہ تم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دُعا مانگو، پھر اُس کی بارگاہ میں (گناہوں سے) توبہ کرو، وہی تمہیں ایک مقررہ مدت تک اچھے لطف کے فائدے اُٹھانے دے گا اور وہی ہر صاحبِ بزرگ کو اُس کی بزرگی (کی داد) عطا فرمائے گا۔"

مفہوم: "اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے مغفرت کی دُعا مانگو اور پھر اُس کی بارگاہ میں (اپنے گناہوں سے) توبہ کرو تو وہ تم پر موسلا دھار مینہ آسمان سے برسائے گا، تمہاری قوت کو بڑھا دے گا اور مجرم بن کر اُس سے منہ نہ موڑو۔" ( سورہ ھود)

جنھیں توبہ و استغفار فائدہ نہیں دیتے، اُن کے متعلق یہ صراحت کی گئی ہے:

"(اے رسولؐ!) خواہ تم ان منافقوں کے لیے مغفرت کی دُعا مانگو یا ان کے لیے مغفرت کی دُعا نہ مانگو (ان کے لیے برابر ہے)۔ تم ان کے لیے ستّر بار بھی مغفرت کی دُعا مانگو گے پھر بھی اﷲ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ (سزا) اِس سبب سے ہے کہ ان لوگوں نے اﷲ اور اُس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا۔ اور اﷲ بد کاروں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔" (سورۂ منافقون)

حدیث شریف میں بھی اِس سلسلے میں راہ نمائی ملتی ہے۔ حضرت آیت اﷲ محمدی ری شہری اپنی معروف کتاب "میزان الحکمت" میں رقم طراز ہیں : جانِ کائنات، فخرِ موجودات، رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفیؐ فرماتے ہیں :"بہترین دُعا استغفار ہے۔۔ بہترین عبادت استغفار ہے۔" (نورالثقلین)

" اُس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کے نامۂ اعمال میں کثیر تعداد میں استغفار پائی جاتی ہے۔" (الترغیب و الترہیب)

" نامۂ اعمال میں استغفار، نور کی طرح جگمگا رہی ہوگی۔" (کنزالعمال)

"اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین استغفار گناہوں سے باز رہنا اور ان پر پشیمان ہونا ہے۔" (تنبیہہ الخواطر)

"جسے یہ بات پسند ہے کہ اُس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے۔" (الترغیب و الترہیب)

" کثرت سے استغفار کیا کرو، کیوں کہ خداوندِ عزّوجل نے تمہیں یوں ہی استغفار کی تعلیم نہیں دی بل کہ اس طرح وہ تمہارے گناہوں کو بخش دینا چاہتا ہے۔"

(تنبیہہ الخواطر)

"اﷲ تعالیٰ تمام گناہ گاروں کو معاف کردے گا سوائے اُن لوگوں کے جو خود گناہوں کی مغفرت نہیں چاہتے۔" پوچھا گیا: "یا رسول اﷲ ﷺ! کون گناہوں کی مغفرت نہیں چاہتا " آپؐ نے فرمایا: "جو استغفار نہیں کرتا۔" (مستدرک الوسائل)

جس پر غموں کی بوچھار ہوجائے اُسے استغفار کرنا چاہیے۔"اﷲ تعالیٰ نے میری اُمت کے لیے مجھ پر دو امانیں نازل فرمائی ہیں، وہ یوں کہ فرماتا ہے، مفہوم : "اﷲ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک (اے پیغمبرؐ) آپ ان میں موجود ہیں اور ان پر عذاب نہیں اُتارے گا جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے۔ جب میں اس دُنیا سے رخصت ہوجاؤں گا تو پھر ان میں قیامت کے دن تک استغفار باقی رہ جائے گی۔" (کنز العمال)

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں :

" بہترین وسیلہ جوئی استغفار ہے۔۔ گناہ گار کا ہتھیار استغفار ہے۔"

" استغفار سے بڑھ کر کوئی اور کام یاب سفارش کنندہ نہیں ہے۔" (غرر الحکم)

" اُس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کے نامۂ اعمال میں بہ روزِ قیامت ہر گناہ کے نیچے استغفر اﷲ لکھا ہوا پایا جائے گا۔" (بحار الانوار)

" جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت (کی نعمت) سے محروم نہیں ہوتا۔"

" ایسا نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی بندے کے لیے شکر کا دروازہ کھولے اور (نعمتوں کی) افزائش کا دروازہ بند کردے یا کسی بندے کے لیے دُعا کا دروازہ کھولے اور قبولیت کے در کو اُس کے لیے بند رکھے، یا کسی بندے کے لیے توبہ کا دروازہ کھولے اور مغفرت کا دروازہ بند کردے۔"

" دُنیا میں عذاب ِ خدا سے دو چیزیں امان کا باعث تھیں، ایک اُن میں سے اُٹھ گئی مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے۔ لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اُٹھالی گئی وہ رسول اﷲ صلی علیہ وآلہٖ وسلم تھے، اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے۔ جیسا کہ اﷲ سبحانہ، و تعالیٰ نے فرمایا ہے، مفہوم: اﷲ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک (اے پیغمبرؐ) آپ ان میں موجود ہیں اور اﷲ ان پر عذاب نہیں کرے گا جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے۔ (نہج البلاغہ)

حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہر شبانہ روز اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سو مرتبہ توبہ و استغفار کیا کرتے جب کہ آپ ؐ کا کوئی گناہ نہیں ہوتا تھا، بات دراصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے خاصانِ خاص اولیاء کو مصائب کے ساتھ دوچار کردیتا ہے تاکہ انھیں وہ کسی گناہ کے بغیر اجر عطا فرمائے۔

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں : "یقین رکھو کہ استغفار جامع ترین دُعا ہے۔"

"جو شخص تہجد کے لیے وتر ادا کرے اور اُس میں کھڑے ہوکر ستّر مرتبہ "اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ربِّیْ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ" کہے اور مسلسل ایک سال تک اِس کی پابندی اختیار کرے تو اﷲ تعالیٰ اسے سَحر کے وقت توبہ و استغفار کرنے والوں میں لکھ دیتا ہے اور اﷲ کی طرف سے اُس کی مغفرت واجب ہوجاتی ہے۔" (نور الثقلین)

حضرت لقمانؑ نے اپنے فرزند کو جو نصیحتیں کیں، اُن میں سے یہ بھی تھی :" اے بیٹے! مرغ کو تجھ سے زیادہ سمجھ دار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تو سَحر کے وقت اُٹھ کھڑا ہو اور استغفار کرے لیکن تُو سوتا رہ جائے!!" (مستدرک الوسائل)

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیبِ کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل یہی توفیق اور سعادت کرامت فرمائے۔