Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. America Bhar Mein Jashn e Nijat

America Bhar Mein Jashn e Nijat

ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوزف بائیڈن نے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کردیا ہے اور وہ امریکا کے چھیالیسویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

جوبائیڈن کی ساتھی امیدوار کمالاہیرس امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوگئی ہیں .78سالہ جو بائیڈن نے الیکٹورل کالج کے 538 میں سے 284 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ انھیں جیت کے لیے 270 ووٹ درکار تھے۔ موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 214 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جوبائیڈن امریکا کے سب سے معمر صدر ہوں گے۔ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کو امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں اور اس کی وجہ ٹرمپ سے جان خلاصی تھی۔ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ میں "کلٹ" کے طور پر جانا جائے گا۔ ایک انا پرست متکبر متعصب اور غیر سیاسی رویہ کا حامل شخص تھا۔ جوبائیڈن امریکہ کے عمر رسیدہ صدر ہیں اس کے باوجود عوام نے بائیڈن حمایت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ صدارتی الیکشن کا فیصلہ پانچ روز تعطل کا شکار رہا جس کا سبب پوسٹل سروس سے موصول ہونے والے ووٹ تھے جو کہ ڈیموکریٹک ووٹرز کے تھے اور انہی کا خوف ٹرمپ کو مارے جاتا تھا اسی لئے ٹرمپ پوسٹل ووٹنگ کے خلاف تھا۔ غیر سرکاری نتائج کے تحت بائیڈن کی فتح کے اعلان کے بعد نو منتخب صدر نے ہفتے کی شب ریاست ڈیلاویئر میں واقع اپنی انتخابی مہم کے ہیڈکوارٹر کے باہر قوم سے خطاب کیا۔

اس موقع پر نو منتخب نائب صدر کمالا ہیرس بھی بائیڈن کے ہمراہ موجود تھیں۔ اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ تمام امریکیوں کے صدر ہیں اور وہ امریکہ کو ایک بار پھر دنیا بھر میں قابلِ احترام بنائیں گے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ ان ووٹرز سے بھی ملیں جنہوں نے اْنہیں ووٹ نہیں دیا۔ اْن کے بقول وہ خود کئی بار ناکامی سے دو چار ہوئے لیکن اب ایک دوسرے کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔

بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ سخت بیان بازی کو ختم کیا جائے، درجہ حرارت کم کیا جائے، ایک دوسرے کو دوبارہ برداشت کریں اور دوبارہ ایک دوسرے کو سنیں۔ پاکستان میں ٹرمپ کو کبھی عمران خان سے اور کبھی نواز شریف کی سیاست سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ ٹرمپ چلا گیا، اب عمران خان کی باری ہے:۔ لیکن ٹرمپ کیسے گیا یہ بھی بتا دیا ہوتا۔ ٹرمپ کوتمام تر ناکامی کے باوجود چار سال مدت پوری کرنے دی گئی، مقررہ وقت پرالیکشن ہوئے اور امریکی عوام نے ٹرمپ کے خلاف ریکارڈ توڑ ووٹ دئیے پھر ٹرمپ گیا۔ صدر جوبائیڈن نے اپنے وکٹری خطاب میں امریکی قوم سے کہا کہ مخالفین کو دشمن کی طرح نہ دیکھیں، وہ امریکی ہیں۔ امریکیوں کی طرح دیکھیں۔ اور پاکستان میں سیاسی مخالفین کا کہنا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ایک دوجے کوٹوٹ کر چاہتے ہیں اور جب شدید پیار آئے تو لاڈ سے ایک دوجے کو پٹواری اور یوتھیا کہہ کر بلاتے ہیں۔

امریکہ کی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر اپنے پلے کیا ہے کبھی اس پر بھی غور کیا؟ سیاسی کلچر کا معیار دن بدن گرا ہے بہتر نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کا بے نظیر کوپیلی ٹیکسی کہنا ہیلی کاپٹر سے بے نظیر اور نصرت بھٹو کی برہنہ تصاویر کے پمفلٹ پھینکنا، شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا یا تحریک انصاف کا مریم نواز پر ذاتی حملے کرنا؟ خواتین پر شرمناک سیاست کرنے والوں کو نہ جانے کس قماش کی عورتوں نے تربیت دی ہے؟ امریکہ کے لوگوں نے کرپٹ بزنس مین ٹرمپ سے نجات کا یوم تشکر منایا۔ ٹرمپ کی زبان بھی پاکستانی سیاسی کلچر سے مختلف نہ تھی۔ صدر جوبائیڈن ایک ایماندار محنتی تجربہ کار منکسر المزاج اور مہذب تعلیم یافتہ شخصیت ہیں۔ ان کی پیدائش ریاست پینسلوینیا کے شہر سکرینٹن میں ہوئی۔ بچپن میں گھر والی ریاست ڈیلاویئر منتقل ہوگئے۔ انہوں نے 1972میں وہاں سے امریکی سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتا۔ اور پھر بار بار جیتتے چلے گئے۔ انہوں نے 1988ء اور پھر 2008ء امریکی صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

جوبائیڈن نے اپنی ذاتی زندگی میں بارہا صدمے دیکھے ہیں۔ سن 1972ء میں سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتنے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور چھوٹی بچی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس ایکسیڈینٹ میں ان کے دو لڑکے زخمی ضرور ہوئے لیکن بچ گئے۔ جو بائیڈن کو اس وقت اپنی رکنیت کا حلف ہسپتال سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران لینا پڑا تھا۔

پھر سن 2015ء میں ان کے ایک صاحبزادے بیو بائیڈن کا دماغی کینسر کے باعث انتقال ہوگیا۔ جوبائیڈن کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ ان کے صاحبزادے مقامی سیاست کے اُبھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھے جا رہے تھے اور سن 2016ء میں ریاستی گورنر کے عہدے کے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔

ڈیموکریٹ ووٹرز کی نظر میں جو بائیڈن جس انداز میں نجی زندگی میں ان سانحات سے نمٹے، اس سے ان کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے بارہا اپنے ان تجربات کا ذکر کیا اور امریکا کے نظام صحت میں اصلاحات پر زور دیا۔