Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Badlion Ki Aout Se

Badlion Ki Aout Se

امریکی ڈاکٹر نے روتے ہوئے نومولود کو اس کے باپ کی بانہوں میں سونپ دیا۔ باپ نے اذان کے لئے اپنے ہونٹ شیر خوار کے کانوں کے قریب رکھے وہ چپ ہو گیا۔ ڈاکٹر کے استفسار پہ باپ نے کہا اس روح کو وعدہ یاد کرا رہا ہوں جو اس نے عالم امر میں اپنے خالق سے کیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا اس ننھی جان کوکیا خبر تم اسے کیا سنا رہے ہو؟ باپ نے کہا یہ ننھی جان دنیا کی گود میں آنکھ کھولتے ہی اپنے دائیں بائیں دودھ کی تلاش میں گردن گھمانا جانتا ہے، بھوک اور آغوش کا تقاضہ کرنا جانتا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے کانوں میں یہ چند بھولے بسرے الفاظ نہیں بلکہ یہ تو جانے پہچانے الفاظ ہیں جو وہ پہلے سن چکی ہے اسی لئے اس کا شعور ان لفظوں میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اس دوران رونا بھول جاتا ہے۔ ہم سب وہ ننھی جان ہی تو ہیں جو اپنے اصل سے بچھڑ چکے ہیں۔ وہ ننھی جان جو بدلیوں کی آوٹ سے اس پار فرشتوں کی پالکی پہ حوروں کی لوری میں بہشت کی حسین دلفریب وادیوں سے جب دنیا میں اترتی ہے تو اپنی ہی کسی دنیا میں غرق ہو جاتی ہے۔ وہ پر نور سویر چڑیوں کی چہچہاتی حمد و ثنا، بچوں کا جھوم جھوم کر کلام الٰہی کی تلاوت کرنا۔ بچپن کی وہ آوازیں عادتیں ماحول کی بازگشت زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر پھرسنائی دینے لگتی ہے۔ پھر سے متبرک لوریاں اس ننھی جان کا تعاقب کرنے لگتی ہیں۔ کلام الٰہی کی کوئی سورہ اٹھا کر دیکھ لیں اک رد ھم ہے اک سرور ہے۔ لفظوں کا اک تسلسل ہے۔ اک اک حرف میں ایک عجیب سی نغمگی ہے۔ اک سحر انگیز پر نور موسیقی اک عجیب لطافت پر کیف کیفیت، ایسے مدینہ کی ٹھنڈی میٹھی ہوا جو سارے بدن کو اپنے ملائم جھونکوں سے مترنم کر دے۔ روح تڑپنے لگتی ہے۔ پلکوں پہ وصل کے ترسے ہوئے چند خشک آنسو، بے اعتبار بے ہنگم دھڑکنیں، یہ دنیا دار لرزتا ہوا وجود، احساس ندامت کی ٹپکتی چند بوندیں، یہ زمین سے اکھڑتے ہوئے قدم، کپکپاتے پھیلے ہوئے ہاتھ، آخر یہ سب کیا ہے کیوں اتنا سوز ہے ان لفظوں میں۔ کس نے رنگ بھرے ہیں اس ذکر گلشاد میں، کیسا ہے اک سحر ان لفظوں کے نشیب و فراز میں۔ کون پنہاں ہے اس روح گداز میں۔ یہ کون ہے جو پکار رہا ہے اس قید تنہائی میں کہ آئو پلٹ آئو گم ہو جائو گے۔ جب بھی تمہیں اداسی کی شامیں، تنہائی کے بادل، خوف کا لرزا، امتحاں کی گھڑی ڈرانے لگے بات کر لیا کر، میرے لفظوں کو پڑھو، غور کرو، محسوس کرو، میں ہوں نا تیرے دل کے نہاں خانوں سے بھی قریب تر۔ کیوں غیروں کی چوکھٹ پہ جاتے ہواور کون ہے جس کے لفظوں میں اتنا نور سمٹا ہو، کون ہو گا جس کی آیتوں میں اتنا سرور لپٹا ہو، اتنا رنگ بھرا ہو کہ ہر رنگ میں اسی کو نمودار دیکھنا۔ تم اک بار اس کوچہ یار میں آئو تو سہی یہاں کی ہر سویر اس کی رحمتوں کے صحن میں اترتی ہے، ہر شام اک نئی امنگ کا دیپ جلائے ہوئے ہے۔ ہر درد پر بہار مسرتیں لئیے جنم لیتی ہے۔ ہر خواب اک نئی امنگ میں پرو کر رکھا ہے۔ لیکن تم ہو کہ اپنی ہی ذات میں کہیں گم، دنیا کی اس قید میں امیدوں کی رات میں۔ یہ خود ساختہ ہجر تیری روح میں آگ بھر دے گی۔ بہت دور نکل گیا تو دیکھ لینا تیرا اپنا ہی وجود تجھ سے اک روزباغی ہو جائے گا۔ تم خود ہو جو تاریکی کو اپنا ہمراہی بنائے ہوئے ہو ورنہ وہ تو ہر رنگ میں ہے، ہر پھول کی مہک میں، شجر و ہجر میں، شاخوں اور پتوں کی اوٹ میں، آفتاب کی کرنوں ندیوں اورجھرنوں میں، وہ کبھی مقام تخیر ہے کبھی مقام سکوت۔ بجلی بن کر چمکتا ہے کبھی بدلیوں کی آوٹ میں رم جھم کی مانند برستا ہے۔ کہاں تو نطفہ حقیر۔ کہاں وہ مالک بے نظیر۔ تیری یہ آن بان شان حسن و شباب مال و اسباب، نیکی کا زعم، تیری ذات اور قوم، تیرا یہ سارا تکبر اس کی ایک کن کے سامنے ڈھیر ہے۔ غیروں کو خدا بنا رکھاہے جو خود تہی دامن ہیں؟ جو خود بھیگ منگا ہے تیرا جہنم کیا بھرے گا۔ جو خود بے سکون ہے ٹنڈ منڈ شاخوں کی طرح، بے آبرو آہوں کی طرح، گمنام راہوں کی طرح، وہ تیرا رہبر کیا بنے گا؟ نظر اٹھا دیکھ بدلیوں کی آوٹ سے وہ ننھی جان مسکرا رہی ہے کہ اے چاک گریبا ں والے تیری اپنی ہی ذات آج تجھے ڈرا رہی ہے۔

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ

جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں