بلا شبہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی ہے مگر اس دوستی نے چین کی دس کی دس انگلیاں گھی میں ڈبو رکھی ہیں۔ چین گوادر سے بلتستان تک چھایا ہوا ہے۔ پاکستان اپنے ہی معدنی ذخائر سے استفادہ کرنے سے کلی محروم کیوں؟ آئی ایم ایف کا مقروض ملک صرف بلوچستان کے چاغی میں ذخائر کو بروئے کار لائے تو سپر پاور بن سکتا ہے۔ مگر کرپٹ حکومتوں کے سبب بلوچستان کے ذخائر سے چین استفادہ کر کے سپر پاور بن چکا ہے۔
چاغی کے پہاڑوں کے پراسرار مقامات پر سونے اور چاندی کے ذخائر ہیں مگر یہ معدنیات کیسے نکالی جاتی ہیں، کہاں فروخت ہوتی ہیں اور کیا منافع ہوتا ہے یہ ایک راز ہے جو عوام سے پوشیدہ ہے۔ اس منصوبے کا آغاز 1990ء میں ہوا تھا، جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی۔ 1995ء میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تیکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کردیا گیا جس کے بعد 2003ء سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔
یہاں کان کنی اور صفائی و پیداوار کا کام چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس ہے۔ چینی کمپنی بین الاقوامی کمپنی ہے لیکن ملازمین کو 80 سے لے کر 120 ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی جس وجہ سے ملازم طبقہ بدحال ہے۔ سیندک ممنوعہ علاقہ ہے، مرکزی سڑک سے لے کر منصوبے تک ایف سی، لیویز اور پولیس کی درجن کے قریب چوکیاں قائم ہیں۔ سیندک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔
بلوچستان ضلع چاغی نوکنڈی میں واقع ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ دنیا کا دوسرا سونے اورچاندی کاذخیرہ ہے۔ ریکوڈک ضلع چاغی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے، جو ریگستانی علاقہ ہے۔ یہ نوکنڈی کے شمال مغرب میں 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سونے اور تانبے سے اٹے پہاڑ ہیں۔ جہاں 12. 3ملین ٹن تانبہ اور 20.9ملین اونس سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 11بلین پاؤنڈ کے تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈک میں 58فیصد تانبہ اور 28فیصد سونا ہے۔
ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائرکی مالیت کا اندازہ 65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، اور جہاں مقامی افراد کے لیے پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ جہاں مقامی لوگ سرکاری و غیر سرکاری نمایندوں کو ہیلی کاپٹروں سے پرواز کرتے، آتے جاتے حیرت سے تکتے رہتے ہیں۔ چاغی کے صحرا میں واقع سینڈک کا منصوبہ ہے جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 650کلو میٹردور ایران افغانستان کے بارڈر کے قریب بلوچستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔
پاکستان میں دھاتوں کی تلاش کا یہ واحد منصوبہ ہے جو سالانہ 144000 ٹن تانبا، 147ٹن سونا اور27.6ٹن چاندی 80سال تک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مذکورہ منصوبہ 1288براہِ راست اور11000بلاواسطہ نوکریاں پیدا کرنے کا بھی باعث بنے گا جو زیادہ تر بلوچستان کے مقامی افراد کے لیے ہوں گی۔ یہ تجویز دی گئی ہے کہ سینڈک میں ایک ریفائنری بنائی جائے جہاں ریفائنری کے قیام کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ منصوبے نے 1995ء میں کام شروع کیا اور تین ماہ کی تجرباتی پیداوار میں 158ملین کی مالیت کا Billet1700تانباپیدا کیا لیکن بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار 1995ء میں سینڈک منصوبے کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ سونا اگلتی یہ بھٹیاں چلانے کے لیے حکومت کے پاس فنڈز موجود نہیں اور عالمی مارکیٹ میں قیمت گرنے کے باعث اب سینڈک کا منصوبہ فائدہ مند نہیں رہا۔
اس وقت کے وزیر خزانہ وی اے جعفری نے 1. 5بلین کے اخراجات کے مطالبے پر لکھا، "ایک بے فائدہ منصوبہ جس کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے جاسکتے۔"پھر برسراقتدار آنے والینواز شریف نے بھی اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اگرچہ ایرانی حکومت نے مبادلہ نظام پر ایک اچھی پیشکش بھی کی تھی۔ حکومت کو اس منصوبے کے فوائد کو زیر غور لانا چاہیے تھا جس سے ملک کو سونے اور چاندی کے ذخائر تک رسائی حاصل ہوجاتی۔
2001ء میں پرویز مشرف نے 10سال کے پٹے کی بنیاد پر سونے کی بھٹی کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ چینی کمپنی کو لیز پر دیے جانے کے معاہدے کے تحت اختیار حاصل تھا کہ وہ سینڈک میں کھدائی، پیداوار، انتظامات اور ترسیل کے ساتھ ساتھ پیداوار کو مارکیٹ میں فروخت کرسکے۔ پیدا وار کا عمل شروع ہوگیا لیکن منافعے کی تقسیم ایک ایسے فارمولے کے تحت کی گئی جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
چینی کمپنی کو 75فیصدوفاقی حکومت24فیصد منافع لیتی ہے جب کہ سالانہ آمدن کا ایک فیصد حصہ بلوچستان حکومت کو دیا جاتا ہے، جو ظاہر ہے انتہائی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبائی حکومت اپنے میگا پراجیکٹس کے ضمن میں خود مختار ہو چکی ہے، اس لیے اب یہ معاملات صوبائی حکومت خود طے کرتی ہے اور سندھ حکومت ڈنڈی مارتی ہے۔ بلوچستان کے سونے کے ذخائر سے متعلق یہ اعداد و شمار ان حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں جو سمجھتے (اور برسر عام کہتے) ہیں کہ بلوچستان میں ایک سوئی گیس کے علاوہ صرف خشک پہاڑ ہی تو ہیں!
یہ خشک پہاڑ ہی بلوچ روشن مستقبل کے ضامن ہیں، بلوچوں کے آباؤ اجداد نے یونہی تو انھیں اپنے قلعے قرار نہیں دیا۔ پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع قصبے تفتان کی حدود شروع سے کچھ پہلے انگریزی اور چینی زبان پر آسمانی رنگ کا ایک بورڈ آویزاں ہے، جس پر تحریر ہے کہ ویلکم ٹو سیندک پراجیکٹ، لیکن یہ خیرمقدم ہر شہری کے لیے نہیں بلکہ کچھ لوگوں کے لیے ہے۔