مریم نواز نے نو ڈیرو جا کر جس فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا ہے بلا شبہ "بندی تابعدار ہے"۔۔۔ مریم کی تابعداری کے توسط سے زرداری نے شریف برادران سے سیاسی انتقام لیاہے، اب بیچاری مولانا فضل الرحمان کے آسرے پر جلسے کر رہی ہے۔ کیپٹن صفدر تو مولانا مرشد کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہے، عقیدت سے بوسہ دینے کی تصویر بھی کمال کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں "پی ڈی ایم فیصلہ کریگی کہ لانگ مارچ اسلام آبادکی طرف کیا جائے گا یا پنڈی کی طرف کیا جائے گا" ایسے روایتی مارچ کئی آئے کئی گئے، پی ڈی ایم کی پاورکا مظاہرہ تب ہوگا اگر مارچ مولانا صاحب کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کی طرف کیا جائے۔
نواز شریف نے مولانا کو کشمیر کا چیئرمین بنایا اور مولانا ایک مکھی مارنے کا اعزاز بھی اپنے نام نہ کر سکے۔ کشمیریوں پر ظلم ہوتا رہا، کشمیر کمیٹی سوئی رہی اور کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن جو پاکستان میں سب سے بڑئے مفاد پرست سیاستدان مشہور ہیں ان کے پاس اپنے دوسرے سیاسی مفادات کی وجہ سے کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی فرصت نہ تھی۔ اپنے وزیراعظم نواز شریف کو پاناما لیکس سے بچانے میں مصروف رہے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت میں مولانا ایک وزیر کے برابر مراعات لیتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کامظاہرہ کیا گیا۔ صرف تین اجلاس بلائے گئے۔ کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہوئی ہے جس کے صرف تین اجلاس پر 18کروڑ روپے کی لاگت آئی۔ اب اقتدار سے باہر ہیں تو نواز شریف کے پیرو مرشد بنے ہوئے ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر چرنوں میں بیٹھے رہتے ہیں کہ عمران خان کو گھر بھیجنے کے لئے مولانا ان کی آخری امید ہیں۔
بڑے بڑے دعوے کرنے والی پی ڈی ایم مینار پاکستان کے "پُھس" جلسے کے بعد "ٹھس" ہو چکی ہے اور اب کہتی ہے ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گے، سینیٹ انتخابات بارے فیصلہ بعد میں ہوگا۔ واہ پھر سینٹ الیکشن میں بھی حصہ لیں گے؟ یعنی اسی تنخواہ پر گزرا کرینگے؟ یہ تو واقعی پی ڈی ایم نکلی "پچھلے درجے کی ڈیم فْول موومنٹ"۔ اس سے بھی دلچسپ بیان احسن اقبال کا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی سوچ میں ہم آہنگی ہے"۔۔ موصوف نے عمران خان کا دعویٰ سچ کر دیا وہ بھی تو 24 سال سے یہی لکیر پیٹ رہا ہے کہ نواز شریف اور زرداری میں کوئی فرق نہیں۔۔ اپوزیشن کرنا سیاستدانوں کا جمہوری حق ہے لیکن اپنی نالائق نسلیں ملک و قوم پر مسلط کرنا نہ جمہوریت ہے نہ انصاف۔ مریم نواز اور بلاول زرداری کو مسلط کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس سے عمران خان کروڑدرجہ بہتر ہے۔ نا اہل موروثیت نے عوام کو عمران خان پر صبر دے دیا ہے۔ نالائق نا اہل نا تجربہ کار موروثیت کا کینسر دیکھ کر عمران خان کے بخار پر راضی ہو گئے ہیں۔ ڈھائی برس میں حکومت چلانا سیکھ ہی گئے ہیں اگلے ڈھائی برس میں بہتری کی امید ہو گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا جہاد ہوس اقتدار ہے۔ کہتے ہیں "عمران خان کیخلاف تحریک جہاد ہے، پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے"۔۔ مولانا نے ہوس اقتدار کو جہاد قرار دے دیا؟ "عقل عیّار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے"۔ اور مریم نواز کو سیلفیاں لینے امپورٹڈ برانڈز پہننے کے علاوہ بے نظیر بھٹو بننے کا بھی خبط ہے۔ نواسی کے ساتھ بھی انگریزی بولنے کی مشق کر رہی ہیں۔ بے نظیر، بھٹو کی بیٹی تھیں جس کو نواز شریف کے روحانی باپ ضیا الحق نے پھانسی دی تھی اور نواز شریف کی بیٹی بے نظیر کی قبر پر پھول پھینکنے نوڈیرو پہنچی ہوئی تھی۔" بندی تابعدار ہے "آصف زرداری نے شریف برادران سے سیاسی انتقام لیتے ہوئے بڑی چالاکی سے مریم کو نوڈیرو تک بلا لیا۔ نہ استعفے دئیے اور سینٹ الیکشن کا اعلان بھی کر دیا اور مزید دلچسپ بات کہ مارچ کرنے کے لئے نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط رکھ دی۔ مریم نواز نے نہ شکوہ کیا نہ اعتراض کیا سر پھینک کر مانتی جا رہی ہیں۔ نواز شریف ضیا الحق کا "بندہ تابعدار تھا" بیٹی آصف زرداری کی "بندی تابعدار ہے"۔ سیاست تو زرداری کرتا ہے، بیٹا بیچارہ نام کا بھٹو ہے۔ پریشانی کی بات نہیں، بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو ایسے ہی ہے جیسے لاہور رکشہ کے پیچھے "ایف 16" لکھا ہوتا ہے۔
شریف فیملی کے ترجمان کہتے ہیں نواز شریف جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کوئی کسی کی جنگ نہیں لڑ رہا اور نہ ہی ستر برسوں میں کسی سیاسی و فوجی حکمران نے ملک و قوم یا جمہوریت کے لئے جنگ لڑی نہ لڑ سکتے ہیں کہ ماشا اللہ سب اقتدار کی جنگ لڑتے رہے اور لڑتے رہیں گے۔ نواز شریف کے پاس اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے آخری کارڈ اداروں سے تصادم تھا جو انہوں نے استعمال کر لیا۔ تا دم مرگ وزارت عظمی کی کشش ہی تھی جس نے گھر بیٹھنے نہ دیا ورنہ پارٹی بھائی کو سونپ کر عزت سے گھر چلے جاتے۔ بھائی نے حکمت کی پالیسی اپنا رکھی تھی اب بھائی کو بھی پھنسا دیا ہے۔ صاحبزادی سیاست اور پارٹی کے لئے غیر مناسب چوائس ہے۔ شعور اور تجربہ لکھی لکھائی تقاریر سے نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو کی طرح دھکے کھانے سے آتا ہے۔ وقت اور ماحول باپ بیٹی سمیت پوری جماعت کے خلاف جا رہا ہے۔ با شعور عوام عوام میں بچوں کی حکمرانی قبول کرنے کی سوچ دم توڑ رہی ہے۔
شہباز شریف ہمیشہ سے دو کشتیوں کے سوار رہے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد اس ملک کی سیاست کٹی پتنگ کی مانند آج تک ہچکولے کھا رہی ہے۔ نواز شریف کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔ موروثیت ناکام ہو جائے گی۔ عمران خان کی جدوجہد بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ وزارت عظمیٰ مل گئی۔ آدھا راستہ کٹ گیا آدھا سفر باقی ہے۔ بندہ ایماندار اور نیک نیت ہے۔ سیدھی بات ہے نا اہل موروثیت کا کینسر دیکھ کر عمران خان کے بخار پر راضی ہونا ہی پڑا ہے۔ زرداری نے مریم نواز کے ذریعہ جس طرح شریف برادران سے سیاسی انتقام لیا ہے بلا شبہ "بندی تابعدار ہے"۔