امریکہ رہتے ایک طویل عرصہ ہو چکا بلکہ جوانی گزر گئی۔ یہاں خواتین ڈالروں کے لیے جاب کرتی ہیں، کچھ مجبوری اور کچھ ان کا شوق آڑے آتا ہے۔ میں نے زندگی بھر رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ کالم نگاری کرتے بھی برسوں بیت گئے مگردیس پردیس تمام اندرونی بیرونی مصروفیات اور مشاغل کے باوجود کچن کی ذمہ داری اور بچوں کی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت سے غفلت نہیں برتی۔ زندگی کا ہر تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے اور مشرق تا مغرب یہی دیکھا کہ کچن والی عورت کو ہر معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہے۔ پاکستانی نام نہاد ماڈرن لڑکیوں اور خواتین کو کچن اور چپاتی کے لفظوں سے الرجی ہو گئی ہے۔ ایسی لڑکیاں ناکام بیویاں اور ناکام مائیں ثابت ہو رہی ہیں۔ سیاسی خواتین کے بالوں کی پن سے بھی جب تک دوپٹہ اٹکا رہتا ہے کچن سے آزادی ملی رہتی ہے۔ فیملی کی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر سیاسی میدان میں لوہا منوانا چاہتی ہیں۔ سیاسی دوپٹہ کی سیاسی داستان سے قطع نظر ایک مشرقی عورت کی پہچان اس کے ہاتھ کی پکی چپاتی ہے۔ کچن اورچپاتی کا تمسخر ایک خاتون کے احساس کمتری کا ثبوت ہوتا ہے۔ آجکل لڑکیوں کے رشتوں میں بڑی رکاوٹ بھی ان کا یہ تمسخرانہ انداز ہے کہ میں کچن میں روٹیاں پکانے کے لیے شادی نہیں کروں گی،۔ کچن والی چاہیے تو ملازمہ بیاہ لائیں،۔
کچن المعروف باورچی خانہ سے فرار دور جدیدکی ہر دوسری لڑکی کا مرض بن چکا ہے اور نتیجہ میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا گھر بربادکر دیتی ہیں جو ہاتھ خدا نے ہانڈی روٹی کرنے کے لیے دیئے تھے۔ چپاتی اور کچن کو جہالت اور دقیانوسی سے تعبیر کرنے والیاں نہ گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی۔ کچن اور چپاتی سے ہی عورت کا حسن قائم ہے۔ کچن اور چپاتی عورت کو اس کی قابلیت اور صلاحیت سے محروم نہیں کرتی بلکہ یہ دونوں لوازمات عورت کو مکمل کرتے ہیں۔ حیرانی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی موجودگی میں باہر کی ذمہ داریاں خود پر لاد لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ ایک مکمل بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد عورت کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ شانہ بشانہ، کا شوق پورا کر سکے؟
پندرہ صدیاں پہلے محمد رسول اللہ ﷺ نے عورت کوبااختیار اور با وقار مقام عطا فرمایا اور برصغیر کی عورت کو اس کا کھویا ہوامقام قائد اعظم محمد علی جناح نے واپس دلایا۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے اور ان پر وقار جلسوں میں مہذب اور سنجیدہ تقاریر ہوا کرتی تھیں۔ برصغیر کی با وقار عورت کو قائد اعظم نے با اعتماد اور بااختیاربنایا۔ ترک صدر طیب اردگان نے ترکی میں نسوانیت کے حامی حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مرد اور خواتین کے درمیان حیاتیاتی فرق کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اپنی زندگی میں دونوں ایک ہی طرح کے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب اسلام نے معاشرے میں خواتین کے لیے ایک پوزیشن واضح کر دی ہے، اس کا تعلق مامتا سے ہے، کچھ لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں اور کچھ لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں، آپ یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے کیوں کہ وہ مامتا کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ترک صدر نے کہا کہ میں اپنی والدہ کے پائوں چومتا تھا، مجھے ان میں سے جنت کی خوشبو آتی تھی، وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی تھیں اور کبھی کبھی رو پڑتی تھیں۔ ماں کی مامتا بالکل مختلف شے ہے۔ مردوں اور خواتین کے ساتھ با لکل ایک سا برتائو کیا ہی نہیں جا سکتا، ایسا کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کا کردار، عادتیں، اور جسمانی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ آپ ایک ایسی ماں کو جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو کسی مرد کے برابر کھڑا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ خواتین کو ہر کام کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے، جو مرد کر سکتے ہیں، جیسا کہ کمیونسٹ نظام والی حکومتوں میں دیکھنے میں آتا تھا۔ آپ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر جا کر زمین کھودنا شروع کر دیں، یہ ان کی نازک فطرت کے منافی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کا مقام عام عورتوں سے مختلف ہو جاتا ہے بلکہ عورت مکمل ہی ماں بننے کے بعد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا میں مرد نے اپنی ذمہ داریاں عورت پر ڈال کر عورت کو برابری کے اعزاز سے تو نواز دیا لیکن اسے ہمدردی اور رحم سے محروم کر دیا۔ باہر کے ملکوں میں عورت گھاس بھی کاٹتی ہیں، برف بھی ہٹاتی ہیں، ہر مشکل اور تھکا دینے والا کام کرتی نظر آتی ہیں، یہ آزادی اسے اس قدر مہنگی پڑی کہ حس نسوانیت بھی جاتی رہی۔ طلاق لیتے وقت مغربی عورت کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہائے میرا کیا بنے گا؟ ، کیونکہ جب سے پیدا ہوئی ہے اس نے اپنی ماں کو بھی مردوں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے۔ ترکی اور ایران کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر تی ہیں لیکن اپنا کچن اور گھر بھی سنبھال رہی ہیں۔ ایک امریکی خاتون نے کہا کہ پاکستانی عورت خوش نصیب ہے، پاکستانی مرد اپنی عورت کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا کرتاہے پھر بھی عورت اپنی قابلیت اور صلاحیت منوانا چاہے تو شوہراس کی اجازت بھی دے دیتا ہے۔ اور ہم سوچ رہے ہیں کہ پھر بھی پاکستانی عورت نا شکری کیوں ہے؟ ہماری مائیں قناعت، صبر، شکر میں با عزت گزارا کر تی تھیں، بچے بھی ایک آدھ درجن سے کم نہیں تھے لیکن گھر وں میں سکون اور برکت تھی۔ اور آج باہر سے حرام اور مردار کھایا جاتا ہے تو گھروں اور زندگیوں میں سکون اور برکت کیسے آ سکتی ہے؟ کچن اور چپاتی کی توہین سے عورت نہ صرف اپنا مقام گنواتی ہے بلکہ اپنا مرد بھی گنوا دیتی ہے۔ مرد خواہ کس قدر آزاد خیال کیوں نہ ہو، اس کے دل میں کچن اور چپاتی والی ماں راج کر رہی ہے۔