حضرت سیّدنا ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ حضور سیّدنا نبی کریمؐ نے فرمایا: "حضرت سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ (منورہ) کو حرم بناتا ہوں "۔ (مسند احمد) حضرت سیّدنا ابوہریرہ سے روایت ہے، حضور سیّدنا رسول کریمؐ نے فرمایا: "مدینہ منورہ کی زمین لوگوں کو ایسے پاک کر دے گی جیسے بھٹی لوہے کی میل کو صاف کر دیتی ہے"۔ (مسند احمد) حضرت سیّدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں، میں نے حضور سیّدنا رسول اللہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: "اللہ نے مدینہ شریف کا نام طابہ رکھا"۔ (یعنی لوحِ محفوظ پر مدینہ منورہ کا نام طابہ یا طیبہ ہے۔ اِس کے معنی ہیں پاک صاف اور خوشبودار جگہ۔ یہاں کے باشندوں کو بدخلقی سے بھی پاک فرمایا۔ مدینہ منورہ کے باشندے اَخلاق و عادات اورنرم طبیعت میں بہت اَعلیٰ ہیں۔ نیز مدینہ منورہ کی زمین بلکہ در و دیوار میں ایک خاص مہک ہے۔ وہاں کے خس و خاشاک اگرچہ گلی کوچوں میں جمع رہیں مگر بدبو نہیں دیتے۔ کرونا نے زائرین پر حرمین شریفین جانا آزمائش بنا دیا ہے۔ مدینہ پاک کی یاد ستاتی ہے۔ عید آتی ہے تو یاد مزید تڑپا جاتی ہے۔ پتہ نہیں امت کے گناہ ہیں یا رب العزت کی آزمائش کہ حرم جانا خواب بن چکا ہے۔
بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا، مدتوں سے بارش نہیں ہو رہی تھی۔ لوگ حضرت موسیٰ کے پاس گئے اور عرض کیا یا کلیم اللہ! رب تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ بارش نازل فرمائے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کوجو ستر ہزار کے قریب لوگ تھے ہمراہ لیا اور بستی سے باہر دعا کے لئے آگئے، دعا ہوتی رہی، مگر بادلوں کا دور دور تک پتا نہ تھا بلکہ سورج کی تپش مزید تیز ہو گئی۔ حضرت موسیٰ کو بڑا تعجب ہوا، اللہ تعالیٰ سے دعا قبول نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو وحی نازل ہوئیتمہارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جو گزشتہ چالیس سالوں سے مسلسل میری نافرمانی کر رہا ہے، اے موسیٰ آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ وہ نکل جائے کیوں کہ اس شخص کی وجہ سے بارش رکی ہوئی ہے اور جب تک وہ باہر نہیں نکلتا بارش نہیں ہو گی۔
حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جو شخص چالیس سال سے اپنے رب کو ناراض کر رہا ہے، لوگوں میں سے باہر آجائے، اس کے گناہوں کے سبب ہم بارش سے محروم ہیں۔ اس گناہگار نے اپنے دائیں بائیں دیکھا، کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا، وہ سمجھ گیا کہ وہی مطلوب ہے۔ سوچا کہ اگر وہ تمام لوگوں کے سامنے باہر نکلا تو بے حد شرمندگی ہو گی اور اس کی جگ ہنسائی ہو گی اور اگر باہر نہ نکلا تو اس کی وجہ سے تمام لوگ بارش سے محروم رہیں گے۔ اس نے اپنا چہرہ اپنی چادر میں چھپا لیا، اپنے گزشتہ افعال و اعمال پر شرمندہ ہو ااور یہ دعا کی اے میرے ربّ! تو کتنا کریم ہے کہ میں چالیس سال تک تیری نافرمانی کرتا رہا اور تو مجھے مہلت دیتا رہا اور اب یہاں میں تیرا فرماں بردار بن کر آیا ہوں، میری توبہ قبول فرما اور مجھے ذلت و رسوائی سے بچا لے۔ ابھی اس شخص کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ آسمان سے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا یا الٰہی! آپ نے بارش کیسے برسا دی وہ نافرمان تو مجمع سے باہر نہیں آیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسی ٰ! جس کی بدولت میں نے بارش روک رکھی تھی اسی کی بدولت اب بارش برسا رہاہوں، اس لئے کہ اس نے توبہ کرلی ہے۔ موسیٰ نے عرض کیا یا اللہ! اس آدمی سے مجھے بھی ملا دے تا کہ اس کو دیکھ لوں۔ فرمایا موسیٰ! میں نے اس کو اس وقت رسوا اور خوار نہیں کیا جب وہ میری نافرمانی کرتا رہا اور اب جبکہ وہ میرا مطیع اور فرمانبردار بن چکا ہے تو اسے کیسے شرمندہ اور رسوا کر سکتا ہوں؟ پروردگار ستار العیوب ہے، چاہے تو امت کے گناہ معاف فرما دے۔
ہم اکثر سوچتے ہیں مسلمانوں پر افتادیں پڑتی ہیں اور تمام مہربانیاں اغیار پر ہی کیوں؟ اس لیے کہ مسلمان دونوں جہانوں کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں بھی ہر نعمت اور مہربانی کے آرزومند ہیں اور آخرت پر بھی اپنا حق جماتے ہیں جبکہ پروردگار نے بارہا فرمایا ہے کہ منکرین کو دنیا میں ہرآسائش دی جائے گی مگر آخرت میں ان کے لیے سخت سزائیں ہیں لیکن مومنوں کے لیے دنیا قیدخانہ اور آزمائشوں کا گھر ہے مگر آخرت میں انہیں تمام نعمتوں اور مہربانیوں سے نوازا جائے گا۔ مذکوہ بالا واقعہ سے ثابت ہوا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے، گناہگاروں کی وجہ سے مومنین بھی آزمائش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان مسلم ریاست ہے اور اس میں اکثریت مسلمانوں کی آبادہے مگر ان میں مومنین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ منافقین کی تعداد شرمناک ہے۔ اللہ رب العزت پر قربان جائیں جو ہماری پردہ پوشی قائم رکھے ہوئے ہے اور ہم شرم سے ڈوب مریں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے نعمتیں روٹھ جاتی ہیں۔ حرم پاک کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔