گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں جن کو بروئے کار لا کر علاقائی اور ملکی معشیت کو ترقی دی جا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان توجہ دے اورسیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے بنیادی و ضروری اقدامات اٹھائے۔
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے جو اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور کوہ پیماوں کی توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے اور یہاں کے خوبصورت شہروں اور دیہاتوں کے فطری حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس دنیا میں جتنی خوبصورت اور دلکش، تصوراتی دنیا سے زیادہ حسین کاریگری پیش کی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان قدرت کی اس کاریگری کو دیکھے اس کوسمجھے اوراللہ تعالی کی دی ہوئی اس زندگی سے بھرپورلطف اندوز ہوجائے۔ گلگت بلتستان ایک ایسی ہی جنت نظیر سرزمین ہے جو جغرافیائی طورپر بہت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی اعتبارسے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا کے سترفیصد پہاڑ گلگت بلتستان میں ہی پائے جاتے ہیں، شاہراہ قراقرم جیسی عظیم الشان سڑک گلگت بلتستان کے حصے میں ہے، دریائے سندھ ایسا طویل اور گہرا دریا جو اکثرپاکستان کو سیراب کرتا ہے، دنیا کی 8ہزارمیٹرسے بلند14 چوٹیوں میں سے 5گلگت بلتستان میں ہیں جیسے کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی وغیرہ جس کو سر کرنے کے لئے آنے والے ہزاروں ملکی اورغیرملکی سیاحوں سے حکومت پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکی آمدنی بھی ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان میں کہیں پہاڑوں کی جلوہ سامانیاں ہیں تو کہیں دریائے سندھ کی پنہانیاں، کہیں آبشاروں کی جلوہ آرائیاں اس خطے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔ یہاں مختلف بالائی علاقوں میں سینکڑوں قدرتی جھلیں ہیں ملکی اور غیرملکی سیاح ان جھیلوں سے ٹرائوٹ مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے سب سے اہم یہاں کی سڑکیں ہیں، اس صوبے کی اکثر سڑکیں کچی ہیں جس کی وجہ سے سیاح اپنی گاڑی کے ذریعے سفر نہیں کرسکتے ہیں، ان کو یہاں کی مقامی مخصوص گاڑیاں کرایہ پر لینی پڑتی ہیں، اگر یہاں کی تمام سڑکیں پکی کی جائیں تو سیاحوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمارا سفر جاری ہے۔ اس دوران کرنل اعجاز تبسم سے بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا جو کسی سرکاری ایجنسی سے وابستہ ہیں اور ان کے صاحبزادے کیپٹن قاسم اعجاز جو کہ ڈی سی راولپنڈی تعینات ہیں سے بھی بلتستان سے متعلق کچھ رہنمائی ملی۔ ہمارا چونکہ اپنی مدد آپ کے تحت نجی وزٹ ہے لہٰذا کسی سرکاری یا فوجی تعاون کے بغیر تن تنہا جہاز پر بیٹھ کر زندگی میں پہلی مرتبہ بلتستان پہنچ گئے۔ سیاح عموماً سکردو اور شنگریلا جھیل تک محدود رہتے ہیں۔
شنگریلا جھیل بھی قدرت کا حسین نظارہ ہے مگر جھیل مصنوعی طریقے سے بنائی گئی ہے جبکہ ہم نے مقامی میزبانوں کے تعاون سے قریباً اسی فیصد بلتستان کافطری حسن نہ صرف دیکھا بلکہ بہت سے سکولوں کا وزٹ بھی کیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجو کیشن شگر سید عراقی کی نو بیٹیاں ہیں اور تمام اعلی ڈگری یافتہ ہیں۔ شگر میں لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم نے مقامی باشندوں کے مسائل بھی جانے اور یہاں کے نوجوانوں کے کھیل بھی دیکھے۔ گلگت بلتستان وادی شگر "سگلدو رنگاہ "میں گائوں سگلدو اورریسر کی ٹیموں کے فائنل مقابلہ میں بطور مہمان خصوصی شرکت بھی کی۔ گلگت بلتستان وادی شگر میں " بلائنڈ جھیل " بھی دیکھی۔ قدرت کا ایک اور نظارہ گلگت بلتستان کی وادی شگر کے قریب واقع بلائنڈ جھیل، کی گہرائی 50 فٹ ہے۔ ایک کلومیٹر سے زیادہ لمبی اور تقریباً 400 فٹ چوڑی اس جھیل کی وسط میں ٹراؤٹ مچھلی کا فارم بھی ہے۔ سنا ہے اس جھیل میں کئی لوگ تیراکی کرتے مر چکے ہیں اس لئے اسے بلائنڈ یعنی اندھی جھیل کہتے ہیں۔ سکردو واپسی پر مقامی پولو گرائونڈ بھی وزٹ کیا اور گھڑ سواری کا مزہ بھی لیا۔ پہاڑوں کی چڑھائی کے علاوہ صحرا میں موٹربایئک بھی چلایا۔ مقامی پھل سبزیاں بھی انجوائے کیا۔ سکردو کے نواح میں کتپانہ ریزورٹ کی طرف بھی نکلے۔ الغرض بلتستان کے چاروں اضلاع سکردو، شگر، گانجھے، کھر منگ کا اسی فیصد علاقہ گھوم لیا۔
لاہور سے سکردو کا دو طرفہ کرایہ قریبا 28000 روپے، شنگریلہ جھیل میں کمرہ 20 ہزار سے 80 ہزار روپے پر نائٹ ہے اور کھانے پینے گاڑی پٹرول کا خرچ الگ۔ سکردو میں کمرہ لیں تو چھ ہزار روپے پر نائٹ تک مل جاتا ہے۔ بڑی گاڑی ڈرائیور سمیت آٹھ ہزار روپے پر ڈے، پٹرول اس کے علاوہ ہے۔ حکومت کو چاہئے سکردو کے لئے پروازیں زیادہ کرے۔ لوگوں کو ٹکٹ نہیں مل رہے۔ بائے روڈ سفر بہت طویل اور تھکا دینے والا ہے اور گلگت سکردو پہنچتے تک بندہ اتنا تھک جاتا ہے کہ سکردو سے آگے وادی شگر دیکھنے کے قابل نہیں رہتا جو کہ قدرت کا حسین ترین مظہر ہے۔ بلتستان کے ضلع گانچھے کے گیسٹ ہائوس بھی سٹاپ کیا۔ گلگت بلتستان کا الگ تھلگ سا ایک علاقہ جہاں فطری اور انسانی حسن ایک جان ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اس علاقے کے لوگ ہیں جو مہمان نوازی اور اچھے اخلاق کے حوالے سے مشہور ہیں تو دوسری طرف قدرت کا حسن اپنی عریاں ترین حالت میں بکھرا پڑا ہے۔ ضلع کے مرکزی مقام ہے کھپلو جو اپنے دریائوں اور پہاڑی جھرنوں کی وجہ سے ہمیشہ غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گانچھے میں داخل ہوتے وقت " گول " کا علاقہ گزرا اور چھمدو پل عبور کر کے " غواڑی " کے گیسٹ ہائوس پہنچے جو کہ ایک دلفریب ریزورٹ پر واقع ہے۔ یہ گیسٹ ہائوس اور اس سے ملحق درسگاہ سعودی حکومت کی تعمیر ہے۔
سعودی حکومت کی بلتستان میں دینی درسگاہوں پر خاص توجہ ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں بھی گلگت بلتستان کے نوجوان فل سکالر شپ پر دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔" غواڑی " ایک چھوٹا سا زرعی قصبہ ہے جو سرمیک سے مشرق میں اور اسکردو کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قصبے کے جنوب مشرق میں دریائے شیوک پر ایک معلق پل ہے جو اسے دریا کے دوسری طرف واقع گاؤں کورو کے ساتھ ملاتا ہے۔ ایک اور معلق پل اسے "کریس "گاؤں کے ساتھ ملاتا ہے۔ گانچھے سے واپسی پر شگر کا ضلع کھر منگ میں داخل ہوئے۔ گھر منگ میں ایک حسین ترین وادی کی چوٹی پر کسی بزرگ کا مصلح بنا ہوا ہے۔ ہم پہاڑی چڑھتے ہوئے اوپر پہنچے تو چار سو جنت کے مناظر دکھائی دئیے۔ بلتستان پہاڑ صحرا دریا آبشاریں چشمے باغات پھل پھول ہریالی کھیت کا زبردست امتزاج ہے۔ بلتستان کی سیر کرانے میں ہمارے ڈرائیور یاسر اور اس کی آرام دہ گاڑی کا بہت اہم کردار ہے۔ یاسر " مائونٹین ٹریولر جی بی " سیاحوں کو اچھی سروس دے رہے ہیں اور عبداللہ ناصر شگری کا " طیبہ گیسٹ ہائوس " وادی شگر کا حسین ترین منظر پیش کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے تمام میزبانوں کے حسن اخلاق نے ہمیں بہت متاثر کیا خاص طور پر مسز شکیلہ نے سکول ٹیچر ہونے کے باوجود ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔