افغانستان میں طالبان نے اعلان کیا ہے کہ نئی کابینہ 11 ستمبر کو اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھائے گی۔ ہائے رے ظالم گیارہ ستم بر دیکھ اپنا مکافات عمل۔۔۔ افغان جنگ کے دوران ہم نے بے شمار کالم لکھے اور پھر بعنوان " گیارہ ستم بر "ایک مجموعہ شائع کر دیا۔ گیارہ ستمبر 2001 امریکہ میں مقیم مسلمانوں نے بھگتا ہے، پوری مسلم دنیا نے بھگتا ہے۔ سوچتے تھے افغانستان کیسے بھگت رہا ہو گا؟ ظلم کی تاریک شب نے مکافات عمل تیار کرنے میں بیس برس کھپا دئیے۔ گیارہ ستمبر کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے ان حملوں کو بیس سال مکمل ہوچکے۔ بیس سال دہشت گرد کہلانے والے طالبان ایک مرتبہ پھر حکومت سنبھالے بیٹھے ہیں۔ نائن الیون واقعہ کے رد عمل میں امریکیوں نے مسلم ممالک کے جھنڈے نذر آتش کئے نہ گھروں کو آگ لگائی نہ ٹائر جلائے نہ گاڑیوں کے شیشے توڑے اور نہ ہی اسلام کے خلاف نعرے بازی کی۔ سمجھدار قوم نے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیا اور مسلمانوں کو" عملی سٹ "ماری۔ مسلمانوں کے لئے یہ دنیا تنگ کر دی۔
نائن الیون کے سانحہ کے بعد مسلمانوں کو جاب ملنا دشوار ہو گیا۔ درسگاہوں میں مسلم طلبا کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی۔ مسلمان کے خلاف معمولی شکایت کا بھی سخت نوٹس لیا جاتا۔ بنیاد پرست یہودیوں کی داڑھیاں مسلمانوں اور سکھوں کی داڑھیوں سے بھی لمبی ہوتی ہیں اور ٹوپی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مذہبی حلیہ میں مسلمانوں سے مشابہت کے باوجود یہودیوں کو اپنے طریق پر چلنے کی مکمل اجازت ہے مگر مسلمانوں کے حجاب اور داڑھی کو دہشت گردی کی علامت بنا دیا گیا۔ دو عمارتیں گرانے کا تمام ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا گیا جبکہ ڈاکٹر اسٹیون جونز جو کہ ریاست یْوٹا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں کا دعویٰ ہے کہ 110 منزلہ یہ دو عمارتیں صرف طیاروں کے گرانے یا محض آگ لگنے سے فوری طور پر بیٹھ نہیں سکتی تھیں بلکہ یہ عمارتیں اندرونی دھماکوں سے گری تھیں۔ یہ دھماکہ خیز مواد بلڈنگ میں رکھا جاتا ہے جسے ریموٹ کنٹرول سے اڑایا جاتا ہے جس سے بلڈنگ سیکنڈز میں زمین بوس ہو جاتی ہے۔
پروفیسر نے ملبے سے حاصل کئے گئے مواد کی تحقیق کی ہے۔ نائن الیون کے واقعہ کو امریکہ کی سوچی سمجھی سازش قرار دینے کی مہم میں 75پرفیسرز اور سکالرز شامل ہیں اور یہ تمام لوگ امریکہ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ حکومت کی مخالفت کے باوجود نائن الیون کے واقعہ کی تحقیق کی تہہ تک پہنچنے میں ان لوگوں کی جدوجہد جاری ہے۔ اسلام امن اور آشتی کا درس دینے والے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد پوری دنیا میں مذہب اسلام کے ماننے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ئے۔ اسلام دشمنوں نے قرآن پاک میں سے ان آیات کا انتخاب کیاجن میں جہاد اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں ارشادات فرمائے گئے اور ان آیات و احادیث کو بنیاد بنا کر اسلام مخالف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔
مسلمانوں کو انتہاء پسند ثابت کرنے کیلئے قرآن و احادیث سے حوالے دیئے جاتے۔ جہاد کو بطور دہشت گردی پیش کیا جاتا۔ مثالیں دی جاتیں کہ دہشت گردی جہاد کی آڑ میں امریکہ کے خلاف اظہار نفرت، حسد اور دشمنی ہے لیکن اصل اسلام کو چھپایا جاتا جس میں واضح الفاظ میں فرما دیا گیا ہے کہ بے گناہ انسان کا قتل جہاد نہیں جہالت اور انتہاء پسندی ہے۔ طاقتور حکومتیں بے گناہوں کے قتل کا حکم دیتی ہیں تو اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جاتا ہے لیکن کوئی مسلمان انتقامی کارروائی کرتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ گیارہ ستمبر میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ انصاف نہیں کہ ان کے نام پر مزید انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں۔