عورت مرد کے سکون اور راحت کے لئے بنائی گئی۔ قرآن پاک میں ہے "اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کردی۔"۔ یہ دنیا مرد کے لئے بنائی گئی ہے۔ عورت کے لئے بناء گیء تھی تو پہلے حوا کو بنایا جاتا اور اس کو سجدہ کرایا جاتا اور آدم علیہ سلام اس کی رونق کے لئے پیدا کئے جاتے، لیکن رب نے آدم علیہ سلام کو پہلے پیدا فرما کے اور فرشتوں سے انہیں سجدہ کرا کے ثابت کر دیا کہ دنیا کی حاکمیت مرد کو سونپ دی گئی ہے اور حوا کو آدم کے سکون راحت اور رونق کے لئے بنایا گیا ہے۔
عورت مرد کی ذمہ داریاں الگ نوعیت کی ضرور ہیں مگر حقوق اور جزا سزا میں دونوں برابر ہیں۔ عورت مرد کی حاکمیت کو تسلیم کرے یا نہ مگر قدرت کے بنائے نظام سے منحرف نہیں ہو سکتی۔ عورت نبی کی ماں ہو سکتی ہے مگر نبی نہیں ہو سکی۔ عورت مرد کا جوڑا بنا کر رب تعالیٰ نے دونوں کے حقوق و ذمہ داریوں کی حدود بھی متعین فرما دیں۔ نافرمان اور بد زبان عورت خواہ نبی کی ہو ناقابل برداشت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ روشن مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غیر موجودگی میں ان کی بیگم سے پہلی بار ملنے گئے اور ان کے ناشکری کے کلمات سنے تو انھوں نے اپنی بہو کو ایکاجنبی بزرگ، کے طور پر مشورہ دیا کہ تمہارا خاوند آئے تو اسے کہنا کہ چوکھٹ بدل لے! وہ تو اپنی کم فہمی میں سمجھی بھی نہیں، شوہر کے آنے پر بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی۔
کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پھرتشریف لائے تو ان کے بیٹے گھر پر نہیں تھے، اب کے نئی بہو سے سلام دعا ہوئی تو شکرگزاری کے کلمات سنے، اس پر جاتے ہوے دعا دی اور کہا کہ اپنے شوہر سے کہناکہ اس چوکھٹ کو سلامت رکھے۔ بیوی نے ایسے ہی کلمات شوہر سے عرض کردیئے۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور الحمدللہ کہا، اپنے بابا جان کی دعا کی برکت سے بہت نعمتیں پائیں۔ درحقیقت عورت کا احساسِ شکرگزاری اورمرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت یا دوزخ بنا سکتا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے جو حکیم تو سب کے نزدیک ہیں اور بعض کے نزدیک پیغمبر بھی ہیں ایک باغ میں نوکری کرلی، اس سے سبق لینا چاہئے کہ حلال پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے۔ مالک باغ ایک روز باغ میں آیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا۔ یہ بے تکلف بکر بکر کھاتے رہے۔ اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں، یہ سمجھا کہ یہ ککڑی نہایت لذیذ ہے۔
ایک قاش اپنے منہ میں بھی رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی، فوراً تھوک دی اور بہت منہ بنایا۔ پھر کہا، اے لقمان تم تو اس ککڑی کو بہت مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔
کہا جی ہاں کڑوی تو ہے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے؟ کہا میں کیا کہتا مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے، اگر اس ہاتھ سے ساری عمر میں ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منہ پر لاؤں! یہ ایسا اصول ہے کہ اگر اس کو میاں بیوی دونوں یاد رکھیں تو کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو اور کوئی بدمزگی پیش نہ آئے۔ بیوی یاد کرے کہ میاں نے ہزاروں طرح کے ناز میرے اٹھائے ہیں ایک دفعہ سختی کی تو کچھ بات نہیں۔ اور خاوند خیال کرے کہ بیوی ہزاروں قسم کی خدمتیں میری کرتی ہے ایک دفعہ خلاف طبع بھی سہی۔ مرد عورت کی جسمانی ساخت ہی مختلف نہیں نفسیاتی و جذباتی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے۔
عورت اگر مرد بن کر جینا چاہے یا مرد عورت کی طرح رویہ اپنا لے تو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سورہ بقرہ میں عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں۔ ارشاد فرما کردونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ سے فرما کر جاہلیت اور تمام دنیا کی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ کر دیا، مرد عورتوں پر حاکم ہیں، مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلاً اور عرفاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے قوت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے، جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لئے اس کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے۔
عورت بیٹے کی بہترین تربیت کر دے تو مرد ظالم ہو گا نہ عورت مظلوم ہو گی۔ یہ ظالم مرد کس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے؟ پہلی درسگاہ کس کو کہا گیا ہے؟ بیٹا زیادہ کس سے پیار کرتا ہے؟ تو ماں کو چاہئے بیٹے کی تربیت ایسے کرے کہ وہ عورت کے لئے مثالی شوہر ثابت ہو سکے۔ مرد کے خلاف بغاوت یا نفرت نسلوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ مرد عورت کا ملاپ بہترین نسل کے جنم کا سبب ہے۔ اگر نسل ہے برباد کرنا ہے تو یہ ملاپ معاشرے میں بہتری کی بجائے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔ اولاد کی تربیت کریں تا کہ بہترین میاں بیوی ثابت ہو سکیں اور معاشرے کو بہترین نسلیں دے سکیں۔