Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Mere Quaid Ka Ghar

Mere Quaid Ka Ghar

کرونا وائرس کے دوران دنیا بھر میں جو فارمولہ تجویز علاج ہدایت حکم نامہ عام ہوا وہ " گھر رہو محفوظ رہو "ہے۔ گھر سے بڑی جنت اس دنیا میں نہیں۔ اللہ تعالی نے بھی گھر کو ہی اپنی عبادت کی علامت اورمرکز بنایا۔ انسان تمام عمر اپنا گھر بنانے کا خواب دیکھتا ہے۔ قائد آعظم نے بھی بڑے ارمانوں سے ایک گھر بنایا تھا مگر انہیں خوابوں کے اس محل میں رہنا نصیب نہ ہوسکا۔ میرے عظیم لیڈر قائد آعظم نے اپنا عالی شان گھر بھی چھوڑ دیا۔ پاکستان میں سیاسی و غیر سیاسی کئی حکمران آئے لیکن قوم کا محبوب قائد اور لیڈر ایک ہی ہے جو رول ماڈل ہے۔ جس کی زندگی کا ہر پہلو آنے والی نسلوں کے لئے مثال ہے۔ برطانیہ کے قابل اور برصغیر کے ہونہار پیشہ ور وکیل امیر ترین اور نفیس ترین طرز زندگی کے قائل میرے قائد جب مسلمانوں کی فلاح کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو نہ اپنی صحت دیکھی نہ اپنے محبوب ترین گھر کی پرواہ کی۔ جناح کی والدہ نے لاڈلے بیٹے کو یورپ بھیجنے سے پہلے خاندان کی لڑکی سے ان کا نکاح کر دیاکہ مبادہ بیٹا یورپ سے گوری نہ کر لائے۔ پہلی اہلیہ کا انتقال ہو گیا لیکن لاڈلا بیٹا یورپ سے گوری نہ کر سکا۔ اللہ تعالی نے اس خوبرو اور قابل ترین نوجوان کے کاندھوں پر پاکستان بنانے کی تاریخی ذمہ داری ڈال دی۔ ہندوستان پلٹے تو پسند کی شادی کی، ایک بیٹی کے باپ بنے۔ عالی شان گھر بنایا لیکن مسلمانوں کے حقوق کی جنگ کے جنون میں نہ گھر بچا نہ صحت نہ گھر والے۔ پھر نہ شادی کی نہ گھر بنایا نہ پاکستان بنانے یا بچانے کے لئے کسی امیر ترین کا تعاون یا مدد حاصل کی۔ میرے محبوب قائد کی بہن نے بتایا کہ اس پاکستان کی خاطر محبوب قائد نے اپنے محبوب گھر کو بھی قربان کر دیا۔ 1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد محمد علی جناح پاکستان چلے گئے اور اس نوزائیدہ مملکت کے پہلے گورنر جنرل بنے مگر جناح کی ایک محبوب چیز ہندوستان میں ہی رہ گئی اور وہ تھا ممبئی میں جناح کا بنگلہ۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک جھگڑا اس بنگلہ پر بھی ہے، جو گذشتہ 70 سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ پاکستان، جناح کے اس بنگلہ پر اپنا حق جتاتا ہے اور پاکستان کے عام شہری کی نظر میں جناح کا یہ بنگلہ ان کی یادگار ہے۔ اسی رہائش گاہ میں قیام کے دوران جناح نے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی، اس کے لیے لڑائی لڑی تھی اور اسی لیے پاکستان اس پر دعویٰ پیش کرتا ہے لیکن ممبئی میں محمد علی جناح کی یہ بنگلہ، ہندوستان کی آنکھوں کو کھٹکتاہے۔ اسے ملک کے بٹوارے کی سازش کا اڈہ تصور کیا جاتا ہے۔ انڈیا نے ممبئی میں جناح کے بنگلے کو "اینمی پراپرٹی" یعنی دشمن کی جائیداد قرار دے رکھا ہے۔ فی الحال یہ عمارت ویران پڑی ہے اور بھارتی حکومت کا اس پر قبضہ ہے۔ ایک مقامی سیاستدان جو ریئل سٹیٹ کا دھندہ بھی کرتے ہیں، وہ جناح کی کوٹھی کو گرانے کی مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ 'یہ دشمن کی ملکیت ہے۔ یہ تقسیم کے ذمہ دار محمد علی جناح نے بنوایا تھا۔ بٹوارے کی وجہ سے کافی خون خرابہ ہوا۔ یہ عمارت اس تکلیف کی یاد دلاتی ہے۔ اسی لیے اسے گرا دینا چاہیے۔ اس کی جگہ ایک ثقافتی مرکز بنایا جانا چاہیے۔

جناح کو ممبئی شہر سے بہت محبت تھی۔ انگلینڈ سے لوٹ کر وہ یہیں بس گئے تھے۔ اپنی رہائش کے لیے انھوں نے یہ شاندار عمارت بنوائی تھی۔ جناح نے یہ بنگلہ اس دور کے یورپی بنگلوں کی طرز پر بنوایا تھا۔ اس بنگلے کا نام ساؤتھ کورٹ ہے۔ یہ بنگلہ جنوبی ممبئی کے مالابار ہلز علاقے میں ہے۔ سمندر کے رخ پر بنی اس عمارت کو بنانے میں جناح نے 1930 کی دہائی میں تقریبا دو لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ اس کا ڈیزائن مشہور آرکیٹیکٹ لارڈ بیٹلے نے تیار کیا تھا۔ اس میں اطالوی سنگ مرمر لگے ہیں۔ ساتھ ہی لکڑی کا کام بھی بہت عمدہ قسم کا ہے۔ اس بنگلہ کو جناح نے اپنے خواب کی عمارت کے طور پر بنوایا تھا۔ اس کی تعمیر کے لیے خاص طور سے اٹلی سے کاریگر بلائے گئے تھے۔ اس وقت وہ شہر کے مشہور بیرسٹر تھے۔ جناح نے جتنے جتن اور تندہی سے یہ بنگلہ بنوایا تھا، اس سے واضح تھا کہ ان کا ارادہ ممبئی میں ہی رہنے کا تھا۔ مگر بعد میں وہ وکالت سے زیادہ سیاست میں الجھ گئے اور آخر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک، پاکستان حاصل کیا۔ پھر وہ اپنے بنائے وطن میں رہنے چلے گئے۔

جناح کو لگتا تھا کہ تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان کے تعلقات اتنے اچھے ہوں گے کہ جب دل چاہے وہ ممبئی آکر کچھ دن اپنے گھر میں رہ سکیں گے۔ لیکن، دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی لکیر کھنچتے ہی، دلوں کی خلیج آسمان سے بھی بلند اور سمندر سے بھی گہری ہو گئی۔ جناح کا واپس اپنے سپنوں کے بنگلے میں آنے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ تقسیم کے بعد جب جناح پاکستان گئے، تو وہ چاہتے تھے کہ ان کے بنگلے کو کسی یورپی کو کرائے پر دے دیا جائے۔ نہرو اس کے لیے راضی بھی ہو گئے۔ لیکن جب تک اس معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے کہ جناح کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد سے ہی اس شاندار بنگلہ پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔

جناح کی بیٹی دینا واڈیا نے بھی اس پر اپنا مالکانہ حق جتایا تھا۔ انڈین حکومت نے'اینمی پراپرٹی ایکٹ ' کو منظوری دی جس کے تحت تقسیم کے وقت جو لوگ پاکستان یا چین منتقل ہوگئے تھے ان کے وارث ان کی جائیداد کا حق نہیں رکھتے ہیں اور وہ حکومت کی ملکیت مانی جائے گی۔ ممبئی میں وزیراعلی کے بنگلے کے ٹھیک سامنے کھڑی یہ عمارت انڈیا اور پاکستان کے مشترکہ ادھورے ورثے میں سے ایک ہے۔ اس وقت یہ پراپرٹی انڈین وزارت خارجہ کے قبضے میں ہے۔ کافی عرصے سے اس عمارت کے متعلق یہ تنازع بھی چل رہا ہے کہ اس کے احاطے میں جنوبی ایشیائی آرٹ کا سینٹر قائم کیا جائے یا نہیں۔ حکومت پاکستان اور جناح کے بعض وارث بھی اس عمارت پر اپنا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ لیکن لودھا کا کہنا کہ اینمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت جناح کے وارث اس پر اپنے دعوے سے محروم ہو جاتے ہیں۔۔۔ میرے محبوب قائد اور لیڈر جیسا پاکستان کو نہ کوئی لیڈر نصیب ہو سکا نہ نصیب ہونے کی امید ہے کہ محمد علی جناح ایک ہی تھا باقی سب مایا ہے۔ جیسے عوام ویسا لیڈر۔ محمد علی جناح کے عوام بھی وہ لوگ تھے جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ دئیے اور پھر پاکستان کو ایسے ایسے حکمران ملتے چلے آرہے ہیں جو غریب عوام کو گھر تو نہ دے سکے البتہ ان سب کے اپنے گھر عالی شان ہیں۔