Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Muhabbat Aur Istiqamat

Muhabbat Aur Istiqamat

حضرت موسیٰ نے پروردگار سے کہا اے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں مگر خدا نے کہا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ جب حضرت موسیٰ نے تقاضا کیا تو خدا کی تجلی سے طور جل گیا اور موسیٰ بیہوش ہو گئے۔ اس واقعہ سے اقبال نے یہ مضمون اخذکیا کہ حضرت موسیٰ"ارِنی" کہہ کر دیدار الٰہی کا تقاضا کرتے تھے۔ یہ تقاضا ان کے لئے جائز تھا کیوں کہ وہ پیغمبر تھے مگر میں عام انسان ہوں اس لئے تقاضا نہیں کرتا حالانکہ دیدار خداوندی کا خواہش مند ہوں۔

یعنی عاشق محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے، ملاقات کے لئے بے چین ہوتا ہے اور جب یہ تڑپ اپنی منزل کو پہنچنے لگے تو محبوب عاشق کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت اقبال کی موجودہ صدی کی ایک نوجوان طالبہ میں دیکھی گئی۔ لخت جگر مومنہ چیمہ آخری عمرہ کے بعد معرفت کے اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں وہ تنہائیوں میں باغات اور گھنے درختوں کے جھرمٹ میں نکل جاتی اورگھنٹوں اشکبار آنکھوں سے آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے خالق سے راز و نیاز میں غرق رہتی۔

ایک شام اس کی ایک امریکی دوست اس کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں کے جھرمٹ میں جا نکلی اور مومنہ کو اس حال میں پا کر پوچھا یہاں کیا کر رہی ہو۔ مومنہ نے اشکبار آنکھوں اور ڈوبتی آواز میں کہا کہ کاش کبھی یہ آسمان کھل جائے اور اسے دیدار الٰہی نصیب ہو جائے۔ یہ وہ تڑپ تھی جس کا ذکر اقبال اپنے فلسفہ خودی اور معرفت و تصوف میں کر چکے ہیں۔ مومنہ پچیس برس کی عمر میں وہ مقام پا گئی کہ اس کے بعد شاید اس کا اس جہان میں مزید قیام اس کے لئے بوجھ بن جاتا ہے۔

مقام معرا ج کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ صورت جو محمد رسول اللہ ﷺ کو نصیب ہوئی، اس کے بعد آپ کے عاشقان اور صدیقین و شہدا، مقربین و صالحین کو اپنی اپنی حیثیت و مقام کے مطابق حاصل ہوتا رہا۔ اولیا کرام کے عرس منانے کے پس پشت بھی یہی فلسفہ معراج پہناں ہے۔ محبوب کا دیدار ہی تو حاصل عبادت ہے۔ ہر انسان کی معراج کا جذبہ عشق ہے۔ اگر کسی میں یہ جذبہ نہیں تو اس کی شخصیت تکمیل سے محروم ہے۔

اقبال کے بقول چونکہ اس وقت کسی شخص میں یہ جذبہ دکھائی نہیں دیتا اس لیئے سب انسانوں کی شخصیات نا مکمل نظر آتی ہیں۔ اللہ سے بھی دنیا مانگنے کا لالچ اور دنیا میں جو محبوب بنا رکھے ہیں، ان سے بھی دنیا وی مفادات و اغراض وابستہ۔ خلوص، قربانی، ایثار، پیار، رحم، ہمدردی کا نام محبت ہے جبکہ عشق و جنون فقط قربانی کا نام ہیں۔ صحابہ کرام جب بھی حضورﷺ سے مخاطب ہوتے "یا رسول اللہ آپ پر ہمارے والدین جان مال اولاد قربان، کہنے کے بعد مدعا بیان فرماتے۔ پہلے خود کو آپ کے قدموں میں نچھاور کر تے پھر عرض کرتے۔

عاشق وصل کے لئے تڑپتا ہے اور پھر جو پل بھی اس دنیا میں گزارتا ہے کانٹوں میں بسر کرتا ہے۔ وصل کی جب تڑپ جنون و دیوانگی کو چھونے لگے تو ملک الموت کو حکم ہوتا ہے کہ جائو میرے فلاں محبوب کو میرے پاس لے آئو۔ اب اس سے جدائی مزید برداشت نہیں ہو رہی۔ اور ہمارا وعدہ ہے کہ ہم کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ حضورﷺ اپنی امت سے بھی بے مثال محبت فرماتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا مجھے قرآن سنائو، میں نے عرض کی "یا رسول اللہ کیا میں آپ کو قرآن سنائوں حالانکہ یہ آپ پر نازل ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا دوسروں سے قرآن سننے کو جی چاہ رہاہے،۔ چنانچہ میں نے آپ ﷺ کو سور النساء سنانا شروع کی اور جب میں "بھلا اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال بتانے کو بطور گواہ طلب کریں گے" پر پہنچا تو کسی نے میرے پہلو کو دبایا جس پر میں نے سر اٹھایا اورکیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی آنکھیں اشکبار ہیں، آنسو مسلسل بہہ رہے ہیں۔ یہ ہے آقا محمد رسول اللہ کی حالت مبارک اپنی امت کے لئے۔

آپ نے فرمایا اے میری امت روز حشر مجھے خدا کے سامنے شرمندہ نہ کرانا،۔ نبی کریم جس وقت اس جہان فانی سے کوچ فرما رہے تھے آپ کی زبان مبارک پر میری امت میری امت، کے الفاظ تھر تھرا رہے تھے۔ یا اللہ روز حشر میری امت کو بخش دینا۔ نبی کریم نے اپنی دنیا کے لیئے کبھی کچھ نہ مانگا، بس جب بھی مانگا اپنی امت کی بخشش کا ہی سوال کیا۔ جتنا پیار محمد رسول اللہ ﷺ اپنی امت سے فرماتے ہیں، اس کی نظیر دو جہان میں نہیں مل سکتی۔ محبت ہو جائے تو مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں۔

محبت کا سفر شروع ہو جائے اور استقامت نصیب ہو جائے تو محبت کی معراج عطا ہو کر رہتی ہے۔