بچے والدین کو چھوڑ کر پردیس چلے جائیں یا تلاش معاش کے لئے ان کے باپ۔ اس عارضی جدائی کو بھی آزمائش کہا جاتاہے مگر بچہ دنیا سے چلا جائے اور اس کی آواز سننے کی امید بھی ٹوٹ جائے تو اس آزمائش کو جنت کا عطیہ قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ گمراہی کی دلدل میں دفن ہو نے والے بچے دونوں جہانوں کے لئے آزمائش ہیں۔ وہ بچے جو اپنے والدین کے قریب ہوتے ہوئے بھی ان سے دور ہو جائیں، گمراہ ہو جائیں یا غربت کے ہاتھوں موت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، حقیقت میں ان بچوں کے والدین آزمائش میں ہیں۔"اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادحقیقت میں سامان آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لئے بہت کچھ ہے "۔ (سورہ انفال)۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: "میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں: اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کا عمل۔ دو تو لوٹ آتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہ جاتی ہے؛اس کے گھر والے اور اس کی دولت لوٹ آتی ہے اور اس کا عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے"۔ اور عمل میں بہترین عمل اولاد کی تربیت ہے۔ نیک اولاد بہترین صدقہ جاریہ ہے۔ بچہ دنیا سے چلا جائے تو ماں مرنے کے بعد سب سے پہلے اپنا بچہ دیکھنا چاہے گی اور یہ جنون بھی اللہ سبحان تعالیٰ کی عطا ہے کہ ممتا میں مقام ربوبیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ دنیا میں ماں کا نعم البدل کوئی نہیں۔ نیو یارک سمندر کے کنارے بیٹھی اوپر ان کالی گھٹائوں میں مومنہ حوروں کے سنگ تتلیوں کی مانند اڑتی پھررہی ہے۔ مومن کی روح آزاد ہوتی ہے۔ جس جنت کے حصول کے لئے مرد اتنی تگ ودو کرتا ہے، اللہ سبحان تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے رکھ دی ہے اور جس حور کے لالچ میں اتنا سفر طے کرتا ہے، اسے جنتیوں کی خادمائیں کہا گیا ہے۔
مومنین اورمومنات پر جب بڑی آزمائش آن پڑتی ہے تو آزمائش کے اس سمندر کا ایک کنارہ "صبر" دوسرا کنارہ "شکر" اور بیچ "مقام خوف" ہے۔ اگر صبر کا دامن چھوڑدے تو اللہ سبحان تعالیٰ کی "معیت" سے محروم ہو سکتا ہے اور شکر کا پہلو چھوڑے تو اللہ کی محبت کھو سکتا ہے کیوں کہ اللہ سبحان تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ صبر اور شکر میں توازن قائم رکھنے کا نام "ایمان" ہے اور صاحب ایمان مومنہ اور مومن کہلاتے ہیں۔ جنت الفردوس کا وعدہ مومنین اور مومنات کے لئے ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں "پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مددکب آئے گی۔ اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے " (البقرہ 214)حقیقت میں دیکھا جائے توزندگی کے ہر مقام اور مرحلہ میں بندہ فقط اللہ کا مدد کا محتاج ہے۔ سمندر کی سطح پر چھوٹی بڑی کشتیاں تیر رہی ہیں۔
مومن کی زندگی بھی کشتی کی مانندہے۔ پانی کشتی کے اندر داخل ہو جائے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ مومن کے دل میں دنیا داخل ہو جائے تو اس کا ایمان ڈوبنے لگتا ہے۔ قرآن و احادیث کے مطابق اگر دنیا میں کوئی جوڑا نیک ہے تو آخرت میں بھی ان کا ملاپ ہو گا آخرت میں نیک کو نیک زوج ملے گا۔ دنیا کی نیک عورتیں جب جنت میں داخل ہوں گی تو جوان اور کنواری بنا دی جائیں گی۔ جنت میں چونکہ درجات ہوں گے لہذا جو خاتون دنیا میں کنواری اور نیک حالت میں مری اس کا جنت میں بہترین مقام ہے۔ نیک مردوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمایا جائے گا۔ حوریں پاکیزہ بیویوں سے مختلف قسم کی عورتیں ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ سے عرض کی "یا رسول اللہ! دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟ حضور نے فرمایا "دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ریشم کو کھدر پر، اس لئے کہ ان پاکیزہ عورتوں نے دنیا میں نیک اعمال کئے، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، عبادتیں کیں "۔ (طبرانی)۔
جنت کے دیگر انعامات کی طرح حوریں بھی بطور انعام عطا فرمائی جائیں گی، یہ خادمائیں نیک مردووعورتوں کی خدمت کے لئے ہوں گی۔ بہشت کو اللہ تعالیٰ نے"مقام امن" قرار دیا ہے جبکہ دنیاکو آزمائشوں اور مصیبتوں کا گھر کہا جاتا ہے۔ جنت وہ دائمی گھر ہے جہاں "موت" کا وجود نہیں، تمام مومن اور بچھڑے ہوئے رشتے ہمیشہ کے لئے مل جائیں گے، وہاں نہ غم ہو گا اور نہ جدائی?!