ایک امریکی سروے کے مطابق پاک افواج کی مقبولیت میں 87 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نواز بیانیہ نے عوام کے دل سے فوج کی محبت کم کرنے کے لئے فوج بیانیہ پر محنت تو بہت کی تھی مگر زمینی حقائق خود کو منوا کر رہتے ہیں۔ فوج اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ سیاستدان ایمانداری سے اقتدار چلائیں تو نہ عوام کو مسئلہ ہے نہ اداروں کو۔ مریم نواز اپنے باپ کی اور بلاول زرداری اپنے باپ کے سلیکٹڈ چیئر پرسن ہیں۔ جعلی وصیت سے سلیکٹڈ شدہ بلاول زرداری بھی جمہوریت کی بات کرتا ہے؟
تجربہ کار بزرگ رہنماؤں کو غلام بنا کر پارٹی پر مسلط ہونا کہاں کی جمہوریت ہے؟ کیا مریم نواز ووٹ کو عزت دے کر پارٹی کی جانشین منتخب ہوئی تھیں؟ نہ الیکشن لڑا نہ پارٹی نے ووٹ سے جانشین منتخب کیا، بادشاہ کی شہزادی بس محل کے اندر ہی سلیکٹ ہو گئی؟ یہ نسلی سلیکٹڈ ملک و قوم کی جمہوریت کے مامے پھو پھی بن گئے۔ مثالیں امریکی جمہوریت کی دیتے ہیں جو پوری دنیا کا جمہوری ماما بنا پھرتا تھا اورجب ان کی جمہوریت کا بھانڈہ پھوٹ جاتا ہے تو وہ بھی خاکی وردی والوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔
واشنگٹن میں بھی جمہوریت بچانے کے لئے فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ 2020 کے امریکی الیکشن کے بعد جب ٹرمپ مافیا نے کیپیٹل ہل پر قبضہ کر لیا تو امریکی فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ امریکی آرمی چیف کو فوج کو میمو جاری کرنا پڑا ہے کہ سیاست میں مداخلت نہ کی جائے۔ جب یہی جملہ پاک فوج کا جرنیل کہے تو غلاموں کا ٹولہ مذاق بناتا ہے؟ امریکہ کا دارالحکومت فوجی وردی کی پناہ میں دے دیا گیا۔ امریکہ کا آرمی چیف مکمل نگرانی کر رہا تھا۔
ٹرمپ حواریوں کی دہشت گردی میں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسر بھی شامل تھے اس لئے امریکی آرمی چیف کو اپنی فوج کو ہدایات جاری کرنا پڑیں کہ جمہوریت کو بچائو اس میں مداخلت نہ کرو۔ یاد کریں جب بائڈن نومنتخب صدر 20 جنوری 2021کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہا تھا اور اس حلف برداری کی تقریب سے قبل ہی واشنگٹن ڈی سی عملاً کسی فوجی چھاؤنی کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت کیپٹل ہِل' پر دہشت گردی کے بعد دارالحکومت کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔
دارالحکومت کی سکیورٹی کے لیے ہزاروں پولیس اہلکاروں کے ہمراہ دس ہزار فوجی اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے اندیشے کے پیشِ نظر خفیہ ادارے بھی پوری طرح متحرک تھے۔ ایف بی آئی کے مطابق 20 جنوری 2021کو ہونے والی تقریب سے قبل یا اس دن بھی واشنگٹن ڈی سی میں مزید پر تشدد واقعات کا اندیشہ تھا۔ یاد رہے کہ نیشنل گارڈز امریکہ کی فوج اور فضائیہ کے ریزرو اہلکاروں پر مشتمل فورس ہے جس کے اہلکاروں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔ ان اہلکاروں کو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال یا قدرتی آفت کی صورت میں امدادی کارروائیوں یا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔
جمہوریت اور آزادی رائے کے چیمپئن امریکہ کو جمہوریت بچانے کے لئے نیشنل گارڈز کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ صدر ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکائونٹ بند کر نا ملکی سکیورٹی قرار دیا گیا۔ اپنی ریاست کے خلاف بات آئی تو اپنے ہی ملک کے صدر کی آواز دبا دی گئی اور دوسروں کے ملکوں میں دخل اندازی اور مخالف پراپیگنڈا آزادی رائے مانا جاتا ہے؟ اپنے خلاف اپنے ہی صدر کی رائے برداشت نہیں ہوپائی اور مسلمانوں کے نبی پاک ﷺ کے خلاف گستاخانہ خاکے اور توہین آمیز مواد شائع کرنا آزادی رائے قرار دیا جاتا ہے؟ ہوس اقتدار خواہ 74سالہ پاکستانی ہو یا دو سو ستر سالہ امریکی، نظام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان میں الیکٹڈ موروثیت اسی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے۔ اس کا ثبوت ٹرمپ نے بھی دے دیا کہ اقتدار نہیں تو پھر ریاست بھی نہیں، نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے کہ نا کھاواں گے نہ کھان دیاں گے۔ تمام دنیا فوج کی پشت پناہی سے چل رہی ہے۔ پاکستان کے عوام نے فوج مخالف بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ جمہوری ڈرامہ باز فنکار بیک ڈور سے ترلے منت میں لگے ہوئے ہیں مگر کوئی مناسب ڈیل نہیں ہو پائے۔ عمران خان نے بھی لوٹا ہوا پیسہ نکلوانے کا ڈرامہ ہی کیا۔ کرپشن کے پروپیگنڈا پر ووٹ تو مل گئے مگر ایک پیسہ نہ نکلوا سکے۔
نواز شریف نے اپنی جان بچانے کی فکر کی اور لندن بھاگ گئے۔ نواز فوج مخالف بیانیہ کو بھارت نے بہت انجوائے کیا البتہ پاکستان کے عوام عارضی جذباتی پروپیگنڈا سے زیادہ دیر متاثر نہ ہو سکے۔ بے شک عمران خان ڈیلیور نہیں کر سکے، مہنگائی کے طوفان نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ لاہور گندا ہو چکا ہے۔ ملکی نظام منجمد ہے۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی اپنے ووٹ پر نوحہ کناں ہیں۔ آگے کیا ہو گا کسی کو کچھ علم نہیں مگر یہ طے ہے کہ نواز شریف کی ملک واپسی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی۔
نوے کی دہائی میں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد فوج کے ایک سربراہ کو ان کے عہدے سے برطرف کیا۔ دوسرے فوجی سربراہ کو وہ برطرف کرنے ہی والے تھے کہ فوج نے اْن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور نواز شریف کو سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنا پڑی۔ نواز کا سادہ لوح ووٹر برین واشڈ ہے کہ ان کا لیڈر فوج کے سامنے ڈٹ گیا ہے۔ ان بریانی پلیٹ ووٹروں کو کون سمجھائے کہ نواز شریف کا سگا بھائی بھی جرنیل ہوتا وہ اس سے بھی پنگا لے لیتے کہ کھل کر کھیلنا چاہتے تھے اور فوج کھل کر کھیلنے نہیں دیتی ورنہ یہ پورا ملک جاتی امرا اور سرے محل بنا دیا جاتا۔