پاکستانی ڈراموں میں سگریٹ نوشی پر " سگریٹ نوشی ممنوع ہے " لکھا ہوتاہے اور اب تو شراب نوشی کے مناظر پر " شراب نوشی حرام ہے " لکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی مکروہ اور حرام کا اعتراف بھی اورتشہیر بھی؟ واشنگٹن 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ دو کروڑ افراد شراب پیتے ہیں، بیس فیصد لوگ معیاری غیر ملکی شراب کا استعمال کرتے ہیں جبکہ اسی فیصد شراب پینے والے دیہاتی اور غریب لوگ ہیں، جو گھروں میں بنی سستی شراب پیتے ہیں اور یہی ناقص شراب ان کی موت کی وجہ بنتی ہے۔ کرسمس اور نیو ائیر میں یہ تعداد دوگنا ہو جاتی ہے۔
2021 کا سال بھی اختتام پذیر ہوا اور شراب نوشی کے ڈیٹا میں بھی شرمناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں قانونی طور پر مٹھی بھر کمپنیاں شراب سازی کرتی ہیں، زیادہ تر یہ مشروب اسمگل کیا جاتا ہے، اس اسمگلنگ میں زبردست منافع کمایا جارہا ہے۔ دسمبر کے چند دنوں میں ملک کے بڑے شہروں سے شراب کی اسمگلنگ میں اضافہ سنا گیا ہے۔ 16ویں صدی میں مغل درباری شراب سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
صرف دوبادشاہوں نے الکحل مشروبات پر پابندی لگائی۔ یہ بادشاہ علاوہ الدین خلجی اور اورنگ زیب تھے۔ پابندی کے باوجود ملک میں شراب کشید کی جاتی رہی، اور لوگ اسے خریدتے اور پیتے رہے۔ 19ویں صدی، اور اس کے بعد ہندوستان پر انگریزوں نے اپنا اقتدار مضبوط کرلیا تو یہاں برطانوی مشروبات کے برانڈز متعارف کرائے جانے لگے۔ انگریز شراب کی تجارت کوقانونی شکل دیتے ہوئے اسے جدید ٹیکس کے نظام میں لے آئے۔ آج بھی پاکستان اور انڈیامیں یہ نظام جاری ہے۔
1860ء میں انگریزوں نے یہاں پرپہلی مرتبہ شراب کشید کرنے کا جدیدپلانٹ لگایا۔ یہ گھوڑا گلی میں، اور پھر کوئٹہ میں لگایا گیا۔ سن2000ء کی دہائی میں کراچی کے ملیر کے علاقے میں ایک بارکھولا گیا۔ 1973 میں ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت نے پاکستان بھر میں شراب کی فروخت پر پابندی کی قرار داد مسترد کر دی۔ یہ قرارداد مذہبی جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ حکومت کا موقف تھا کہ اس کی توجہ دیگر بڑے ایشو ز پر ہے۔
ضیا دور میں شراب کی فروخت اور استعمال پر سخت سزا رکھی گئی۔ ممانعت کے آرڈیننس کے مطابق ضیا حکومت شراب فروخت کرنے اور پینے کی پاداش میں 80 کوڑوں کی سزا دیتی۔ تاہم یہ آرڈینس غیر ملکیوں اور پاکستانی غیر مسلموں کے لیے "لائسنس یافتہ شراب کی دکانیں " کھولنے کی اجازت دیتا تھا۔ 80کی دہائی میں غیر قانونی طور پر شراب فراہم کرنے والے مافیا کو بے پناہ ترقی ہوئی۔ چونکہ پابندی کی وجہ سے غیر ملکی شراب کی قیمت میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا، اس لیے غیر معیاری اور جعلی شراب تیار او ر استعمال کی جانے لگی۔ اس کا استعمال ہلاکتوں کا باعث بننے لگا۔
شراب فروخت کرنے کے پرمٹ غیر مسلموں، خصوصاً ہندو اور عیسائی افراد کو جاری کئے جاتے ہیں۔ لیکن اقلیتوں کی آڑ میں زیادہ تر شراب مسلمان ہی پیتے ہیں اس کے علاوہ بڑے ہوٹلوں اور کلبوں سمیت طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے گھروں میں بار رومز بھی بنارکھے ہیں، جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر شراب نوشی کرتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ عرصے سے ہندو اور عیسائی برادری کے بعض اکابرین دہائی دے رہے ہیں کہ ان کے مذہب میں بھی شراب کی اجازت نہیں۔ چنانچہ اقلیتی افراد کے نام پر جاری شراب فروخت کرنے کے پرمٹ کینسل کئے جائیں اور شاپس بند کرائی جائیں۔
پاکستان کی سب بڑی اقلیت ہندو زیادہ تر سندھ میں رہتے ہیں۔ لیکن ان میں آٹھ سے دس فیصد ہی ایسے ہیں جو شراب خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے نام پر اعلیٰ درجے کی شراب کے بڑے خریدار مسلمان ہی ہیں۔ صوبہ سندھ میں شراب کی منظور شدہ 124 شاپس ہیں جن میں سے 59 وائن شاپ کراچی میں ہیں۔ کلفٹن اور ڈیفنس اورایسے پوش علاقوں میں اقلیتی برادری کے کتنے لوگ رہائش پذیر ہوں گے؟ غیر مسلموں کی آڑ میں نام نہاد مسلمان رج کے شراب پی رہے ہیں۔