یکم نومبر1947 شمالی علاقہ جات کے بزرگوں نے ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی مدد سے بے سروسامانی کے عالم میں غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 28 ہزار مربع میل جنت نظیرعلاقہ ڈوگروں ہندؤں اورسکھوں سے آزاد کروایااورروطن عزیز میں بطورتحفہ شامل کردیا۔ ہم اس عظیم یوم کی مناسبت سے ان ہیروز کوسلام اور قوم کو مبارک پیش کرتے ہیں۔ پاک وطن عطیہ خدا وندی ہے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا "جو شخص تھوڑے سے رزق پر راضی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تھوڑے سے عمل پر راضی ہو جاتا ہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا "قناعت وہ دولت ہے جو ختم نہیں ہو سکتی۔" اسلامی ریاست پاکستان کا وجود شکر گزاری کا پہلا حقدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے پسے ہوئے مسلمانوں کو ایک آزاد اسلامی ریاست کی نعمت سے نوازا تاکہ مسلمان ایک آزاد ریاست میں سانس لے سکیں۔ ان کا اپنا ایک تشخص ہو، اپنا وطن، اپنا پرچم، شناخت اور تہذیب و اقدار ہوں۔ وطن کی شناخت پرچم کے ساتھ ہے جبکہ پرچم کی حقیقت لوگوں کے جذبوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ انسان کا ضمیر غدار ہو جائے تو اس کا جسم بظاہر وطن میں ہوتا ہے مگر اس کا ضمیر دشمنوں کے قبضے میں ہوتا ہے اور وطن کا وفادار ہو تو جسم باہر ہو مگر اس کا ضمیر اپنے وطن کی خاطر مر مٹنے کے لئے بے قرار رہتا ہے۔
ضمیر زندہ ہو تو اس کی سانسیں وطن کی دھڑکنوں کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ وطن انسان کے ضمیر کے اندر ہوتا ہے۔ وطن خلوص اور قربانی کے جذبوں کانام ہے۔ وطن کی پہچان صرف زبان اور پرچم ہی نہیں بلکہ وہ اعتماد بھی ہے جو وطن اسے دیتا ہے مگر اس وطن کا کیا جائے جس کی عمارتوں پر پرچم تو لہرا تے ہیں مگر ان عمارتوں کے اندر بیٹھے لوگوں کے ضمیر مر چکے ہیں۔ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ کل جس کے پاس عزت تھی، آج زمین پر ہے اور عزت جب ایک بار چلی جائے تو لوٹ کر نہیں آتی۔ مکافات عمل کے اس دائرے میں پاکستان کے تمام ادارے گھوم رہے
ہیں۔ ہر شخص کو اس دنیا سے ایکسپوز ہو کر جانا ہے۔ پاکستان کسی کا قرض نہیں رکھے گا اور نہ ہی کسی قرض دار کو معاف کرے گا۔ سب اس ملک کے مقروض ہیں، اس کے احسانات کے مقروض ہیں۔ جس شخص نے بھی اس ملک کو لوٹنے اور بیچنے کی کوشش کی، ذلیل و رْسوا ہوا۔ پاکستان کو آزاد کرانے کی قیمت اس قدر بھاری ادا کی گئی ہے کہ اس کا قرض تا قیامت نہیں اتارا جا سکتا۔ کوئی لْٹیرا اس ملک سے بچ کر نکلنے کا تصور نہ کرے، جہاں جائے گا عبرتناک انجام پائے گا۔
ملک کی لوٹی ہوئی دولت اپنی زندگی میں ہی اس غریب ملک کو واپس کر دی جائے ورنہ یہ حرام کے جمع کئے ہوئے اثاثے گلے کا پھندا بنیں گے۔ دو گز کی زمین کو جنت کا باغ بنانے کے لئے ملک سے چْرائی دولت ملک کے غریب عوام کو لوٹا دی جائے ورنہ ایک ایک پیسے کا حساب ہو گا اور قبر جسم کو اس زور سے جکڑ دے گی کہ ہڈیاں پسلیاں چٹخ جائیں گی اور پھر دوزخ کی کھڑکی کا دروازہ کھول دیا جائے گا کہ ہمیشہ کے لئے آگ میں جھلستے رہو۔ حرام خوروں اور بدعنوان، کرپٹ عناصر کو ملک کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی یاد کرائی جائے گی مگر واپسی کی مہلت نہیں مل سکے گی۔ حرام خوروں کی بیگمات کے جسموں پر جھولنے والے زیورات اور ملبوسات دو گز کی زمین میں سانپ اور بچھو بن کر ان کے جسموں کو ڈس رہے ہوں گے۔
حرام کی کمائی کا ایک ایک پیسہ اور ایک ایک نوالہ جہنم کی آگ کے شعلے بن کر بھڑکے گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا "بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے سے بچو۔" ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا ڈنگ ضمیر کو ڈستا رہتا ہے۔ غریبوں کی قربانیوں کا لہو پاکستان کی صورت میں اپنا نشان چھوڑ گیا ہے۔ پاکستان اپنی ایک ایک پائی کا حساب لے گا۔ پاکستان میں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ کھانے کو نہیں پینے کو صاف پانی میسر نہیں مگر اس ملک میں سیاست کرنے والوں کے ضمیر، گھر اور طرز زندگی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس شخص کو بھی موت یاد ہے، دو گز کی زمین پر ایمان ہے، وہ شخص اس پاک وطن کی لوٹی ہوئی دولت اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔
لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد 14اگست 1947ء کو ریاست مدینہ کے بعد دنیا کا پہلا آزاد اسلامی ملک پاکستان کے نام سے وجود میں آیا۔ اس زمانے میں گلگت بلتستان کے علاقوں میں ڈوگرہ اور سکھوں کی حکومت تھی۔ گلگت بلتستان کا وسیع خطہ پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان سیاحت اور پانی سے مالامال ہے بلکہ وطن عزیز کی سرحدیں چین اور وسطی ایشیاء تک پہنچ چکی ہیں اور یہی گلگت بلتستان ہے جو کہ پاک چین دوستی کی لازوال علامت ہے اور اس خطے کے عوام وطن عزیز کے بہترین محافظ بھی ہیں۔