Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Shahbaz Ki Parwaz

Shahbaz Ki Parwaz

میاں شہباز شریف کی محنت خلوص نیت اور حب الوطنی کے دشمن بھی معترف ہیں۔ ملک آئی سی یو میں رکھا ملا ہے۔ پہلی ڈیڑھ برس کی شہباز حکومت نے ذمہ داری اٹھا کر بدنامی مول لی تھی اور اب بھی کوہلو کے بیل کی طرح چکی میں پس رہی ہے۔

پاکستان جس حال میں ملا ہے اس کو آئی سی یو سے ڈسچارج کرانے کے لئے دن رات خون پسینہ بہاناہوگا۔ سستی روٹی پرانا طریقہ سیاست ہو چکا۔ حکومت کسانوں سیگندم خریدے کھاد سستی کرے کسانوں کو ریلیف دے۔ روٹی خود بخود سستی ہو جائے گی، غریب تندور والا ہی نہیں امیر کسان بھی رو رہا ہے۔ اگر روٹی اور آٹے کو سستا کرنا ہے توحکومت کو چاہیے کہ وہ فصل پر آنے والی لاگت کو کم کرے۔

اب لاگت اتنی ہوگئی ہے کہ کسان کی سرمایہ کاری بھی پوری نہیں ہوتی اور حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ پیداواری لاگت سے کم پر گندم خریدے اور اس کی بنیاد پر آٹے اور روٹی کو سستا کرے۔ ابھی تو حکومت مکمل طور پر تشکیل نہیں پا سکی، ابھی کئی شعبے اور محکمے محنتی اور تجربہ کار عہدیداران کے منتظر ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل بھی در بدر ہو رہے ہیں۔ OPF کا محکمہ بھی کسی تجربہ کار مخلص قلمدان کا منتظر ہے۔ ابھی تو وفاق کو سنبھلنے کے لئے مہلت اور ہمت کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن کا کام غل غپاڑہ مچانا ہے جبکہ حکومت کا کام ملک بچانا ہے۔ عوام حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اپنی حالت پر رحم کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے حکمرانوں کو برا مت کہو کہ ان کے دل میرے قبضے میں ہیں، تم اپنے اعما ل بدل لو، میں تمہارے حکمرانوں کے دل تمہارے حق میں بدل دوں گا۔ جیسی رعایا ویسے حکمران۔ بعض اوقات حاکم حضرت علیؓ جیسا عالی شان ہو لیکن عوام حاکم کے معیار پر پورا نہ اتر سکیں تو صورتحال حضرت علیؓ کے دور خلافت جیسی ہو جاتی ہے۔

حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ میں جنگ جاری تھی۔ اس دوران حضرت علیؓ کے ساتھیوں میں سے کسی نے پوچھا یا امیر المومنین آپ سے پہلے خلفاء کے دور میں فتوحات ہوا کرتی تھیں، آپ کے دور میں ایسا کیوں نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا خلفائی فتوحات کے پیچھے ان کے ساتھیوں کا جذبہ ایمانی کار فرما تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھی عمر فاروق جیسے لوگ تھے، عمرؓ کے ساتھی عثمان غنیؓ جیسے لوگ تھے، عثمان غنیؓ کے ساتھی مجھ جیسے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ تم جیسے لوگ ہیں۔ حاکم وقت صفات میں علی مرتضیٰؓ جیسا کیوں نہ ہو، عوام کا جذبہ ایمانی کمزور پڑ جائے تو حاکم کو وہی حالات درپیش ہوتے ہیں جو حضرت علیؓ کے زمانے میں انہیں درپیش تھے۔

حضرت علیؓ کا دور سیاسی اعتبار سے پریشانیوں کا دور تھا۔ اس کے بعد بادشاہت و آمریت کا دور شروع ہوگیا۔ پاکستان کا دور انتہائی گومگو کی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس ملک اور اس کے عوام پر کسی صحابیؓ کو بھی حکمران بنا کر بھیج دیا جائے، اس ملک کی اخلاقی و سیاسی حالت تبدیل ہونے کا امکان نہیں کیوں کہ اس کا سبب حکمران سے زیادہ عوام کی سوچ، کردار اور رویہ ہے۔

ھم نے ایک کتاب " جھلی " لکھی تو جناب مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ اس ملک کو عقلمندوں نے بہت لوٹا ہے اب اس ملک کو "جھلوں" کی ضرورت ہے۔ جھلا یا جھلی وہ ہوتے ہیں جو لینا نہیں بلکہ دینا جانتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ حاکم اچھا ہو تو سارا نظام درست ہو سکتا ہے۔ حضرت علیؓ کے الفاظ مبارک کی روشنی میں حاکم کی گڈگورننس اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک حاکم کی کابینہ اور عوام اس کا ساتھ نہ دیں۔ ایک مرد اپنی عورت کے تعاون کے بغیر ایک گھرکامیابی سے نہیں چلا سکتا، تیس کروڑ انسانوں کے تعاون کے بغیر پورا ملک کیسے چلا سکتا ہے؟

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو کسی نجات دہندہ کا انتظار ہے تو ہم غلط کہتے ہیں۔ اس ملک کے عوام میں دینی و اخلاقی قدروں کا معیار باقی رہا اور نہ انہیں حکمران ایسے مل سکے جو ان کی تقدیر بدل سکیں۔ جیسے عوام ویسے حکمران یا جیسے حکمران ویسے عوام۔ پاکستان کے نصیب میں ادھورے قائدین ہی کیوں لکھے ہیں؟ کسی کا اثاثہ باہر ہے کسی کا دل کسی کی محبت کسی کی اولاد لیکن حکمرانی کے خواب پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں۔

پاکستان کوموجودہ صورتحال سے میاں شہباز شریف جیسا محنتی تجربہ کار مخلص حکمران ہی نکال سکتا ہے بشرطیکہ تمام ادارے اور عوام فقط ملک کی خاطر متحد ہو سکیں۔