Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Shaib Abi Talib Mein Lockdown

Shaib Abi Talib Mein Lockdown

سری نگر سے کشمیری بہن کا فون آیا۔ ہماری نیو یارک سے متعلق خیر خیریت پوچھ رہی تھی۔ نیویارک میں کرونا وائرس سے تباہی اور اموات پر متفکر تھی۔ بار بار ہمارے شوہر اور بچوں کی بابت پوچھتی رہی۔ ہم نے دْکھی لہجہ میں کہا کہ آپ لوگ نو مہینے سے ظلم کے ہاتھوں لاک ڈائون ہیں اور دنیا کی طاقتور حکومتوں نے بھی آپ مظلوموں کا ساتھ دینے کی بجائے ظلم کا ساتھ دیا تو پروردگار کی غیرت کب تک خاموش رہ سکتی تھی پس آج پوری دنیا لاک ڈائون ہے۔ کشمیری بہن نے جواب دیا کہ طیبہ بہن ہم تو برسوں سے اس لاک ڈائون اور مظالم کے عادی ہیں مگر اس مرتبہ نو مہینے ہو گئے ہیں گھروں میں قید ہوئے۔ ہم نے دل گرفتہ ہوتے ہوئے کہا میری بہن کشمیریوں اور باقی دنیا میں ایک فرق واضح ہے کہ تم کشمیری اس حال میں بھی مطمئن اور مضبوط ہو اور دنیا کو ایک چھوٹے سے جراثیم نے خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چند روز کا لاک ڈائون عمر قید معلوم ہو رہا ہے۔ رب کا فرمان حق ہے کہ حق سچ پر قائم لوگ گھبرایا نہیں کرتے اور مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے لوگ اپنے نظریہ پر ڈٹے رہنے والی اقوام ہیں جبکہ ظالم آج خود بد حواس ہوئے پھر رہے ہیں۔ ہم دونوں بہنیں شعب ابی طالب میں تین سالہ لاک ڈائون کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیں۔ مسلمانوں تم ایک معمولی جراثیم کے ہاتھوں چند روز کے لاک ڈائون سے گھبرا گئے یاد کرو اپنے نبی اقدس ﷺ اور آپؐ کے خاندان کو جب قریش کے طاقتور ظالم لوگوں نے تین سال محصور رکھا۔ مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ کھانا پینا باہر نکلنا تک بند کر دیا۔ شعب ابی طالب مکہ کے قریب ایک پہاڑ کی گھاٹی کا نام ہے۔ جہاں 7 نبوی بمطابق ستمبر 615ء میں حضور ﷺاور خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینی پڑی۔ یہ نتیجہ تھا اس ظالمانہ منصوبے کا جو قریش مکہ نے دعوت اسلامی کی آواز کو دبانے کے لیے بنایا تھا۔ یعنی بنو ہاشم سے ہر طرح کے تعلقات توڑ لیے جائیں۔ یہ معاشرتی پابندی (Social Boycott) محرم 10نبوی تک جاری رہی۔ تقریباً 3 سال۔ اس دوران میں حضور ﷺاور ان کے خاندان کو نہایت مشکلات کا سامنا رہا۔ ان حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دوران میں بھوک کو مٹانے کے لیے بعض اوقات درختوں کی جڑیں چبانا پڑتی تھیں اور پیٹ پر کھجور کے تنے یا چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ اس ظالم قسم کے لاک ڈائون کے ختم ہونے کے بعد جلد ہی حضور کے چچا ابو طالب اور زوجہ محترمہ ام المومنین خدیجہؓ وفات پا گئے۔ حضور ؐ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔

شعب ابی طالب میں لاک ڈائون کے دوران مشرکین مکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے اور قریش کی اعلی مجلس کے اراکین نے منصور بن عکرمہ کے قلم سے ایک عہدنامے پر دستخط کئے۔ یہ عہدنامہ کعبہ کے اندر دیوار پر لٹکایا گیا اور قسم اٹھائی کہ ملت قریش زندگی کے آخری لمحوں تک درج ذیل نکات پر عمل کریں گے: محمدﷺ کے حامیوں کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی ہوگی؛ان کے ساتھ تعلق اور معاشرت سختی کے ساتھ ممنوع ہوگی؛ہرقسم کا ازدواجی رشتہ اور ہر قسم کا پیوند، منع ہے؛تمام تر واقعات میں محمدﷺ کے مخالفین کی حمایت کی جائے گی۔ شعب ابی طالب کی ناکہ بندی تین سال تک جاری رہی اور قریش کا رویہ شدت اختیار کر گیا یہاں تک فرزندان بنی ہاشم کے کراہنے کی صدائیں مکہ کے سنگدلوں کے کانوں تک پہنچتی تھی لیکن ان کے دلوں پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا تھا۔

قریش کے جاسوس تمام راستوں کی نگرانی کرتے تھے کہ کہیں اشیائے خورد و نوش شعب ابی طالب تک نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن شدید نگرانی کے باوجود کبھی کبھی خدیجۃ الکبری کا بھتیجا حکیم بن حزام اور بھانجے ابو العاص بن ربیع اور ہشام بن عمر آدھی راتوں کو گندم اور کھجور اونٹ پر لاد کر شعب کے قریب پہنچا دیتے تھے اور پھر یہ خفیہ تعاون ان کے لئے مسائل کا سبب بنتی تھی۔ پیغمبرؐ اور آپؐ کے اصحابؓ اور چچا ابو طالب اور زوجہ مطہرہ خدیجہ ؓ کو مشکل ترین صورت حال سے گذرنا پڑا انھوں نے اس عرصے کے دوران حضرت خدیجہؓ کے سرمائے سے گزر بسر کرتے تھے۔ قریش میں سے بہت سے ایسے افراد بھی تھے جن کے شعب ابی طالب میں بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں اور قریبی رشتہ دار تھے اور وہ اس کوشش تھے کہ اپنوں کو شعب سے نکال دیں۔

آج کرونا وائرس سے بچائو کے لئے پوری دنیا میں لاک ڈائون کا سلسلہ جاتی ہے۔ دنیا بھر کی نعمتیں میسر ہیں۔ تمام دنیا سے رابطے قائم ہیں۔ آرام اور فرصت کے دن میسر ہیں اس کے باوجود دنیا پریشان ہے۔ ڈیپریشن کا شکار ہے۔ حتی کہ شعب ابی طالب والے محمد رسول اللہ ﷺ کی امت بھی اس عارضی آرام دہ لاک ڈائون کے ہاتھوں بے حال ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس لاک ڈائون میں خود احتسابی کی مشق کا رحجان کم ہی لوگوں کو نصیب ہے۔ الا ما شاء اللہ انسانوں میں اللہ کا خوف ختم ہو چکا تھا۔ دنیا کے مال نے امیر غریب سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ بے یقینی کا آسیب ان کے سروں پر ہمیشہ منڈلاتا ہے۔ اس ملک کا ہر دوسرا شہری "انگزائٹی" کا شکار ہے۔ امیر طبقہ ڈیپریشن کا شکار ہو تا ہے تو ماہر نفسیات کے پاس چلا جاتا ہے اور غریب روتا ہے تو اولیاء اللہ کی درگاہوں پر چلاجاتا ہے۔ عقیدتمندوں کو اس سے سروکار نہیں کہ قبروں والے سنتے ہیں یا نہیں، انہیں دکھ اس بات کا ہے کہ زندہ انسان بہرے ہو گئے ہیں۔ سنگدل اور بے حس انسانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں زندہ مت بولو در حقیقت یہ مردہ ہیں،۔ بلا شبہ ایسے لوگ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ منتیں اور مرادیں امیرلوگ مانگاکرتے ہیں غریب صرف منت سماجت کر تاہے۔ دنیاوالوں کے آگے رونے سے قبروں پر رو نے کو پردہ داری سمجھتا ہے۔ بابا فرید الدین گنج شکر فرما گئے ہیں

میں جانیا دکھ مجھی کو، دکھ سبھائے جگ

اْچے چڑھ کے ویکھیا، تاں گھر گھر ایہا اگ

( میں سمجھا زمانے میں صرف میں ہی دکھی ہوں مگر جب چھت پر چڑھ کر دیکھا توہر گھر سے دکھ کا دھواں اٹھ رہا تھا)

اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر چند گھڑیاں رو لینا بہترین " تھیراپی "ہے، زبردست" کتھارسس "ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے پھر کیوں مسلمان مکے دوڑا جاتا ہے؟ انسان کو جہاں سے سکون ملے وہ وہاں جانا چاہتا ہے۔ اللہ کا مکان دل میں گھر کر جائے تو بندہ ہر مقام اور ہر حال میں راضی رہتا ہے۔ ا طمینان حقیقی "رضا " میں پنہاں ہے۔ جو اللہ پر راضی ہو گیا، وہ شفاپا گیا۔ جب تک دل میں ملامت، ندامت کے احساسات بیدار نہیں ہو ں گے، پیشانی قالین چومتی دکھائی دے گی لیکن رضاکی حقیقت پا گیا تو چلتے پھرتے نماز قائم ہو جائے۔ کرونا وائرس خلق خدا کو اپنے خالق سے جوڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کرونا وائرس کو برا نہ کہو بلکہ اس میں فلاح شفا اصلاح تلاش کرو۔۔۔