Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Wadi e Dasu Se K2 Ka Nazara

Wadi e Dasu Se K2 Ka Nazara

وادی شگر سکردو سے ایک گھنٹہ ڈرایئو پر شروع ہو جاتی ہے۔ چار سو بہار جوبن پر ہے۔ سکردو سے 50 کلومیٹر دور سرمِک گاؤں کے باسی اپنی ٹوپیوں میں پھول لگا کر بہار کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔ جہاں چلے جائو بلتی لوگ حسن مسکراہٹ اور اخلاق کی مثال ہیں۔ شمالی پاکستان میں بلتستان میں ایک وادی ہے جسے دریائے شگر سیراب کرتا ہے۔ وادی سکردو سے اشکول جسے مقامی لوگ اشکولے بولتے ہیں۔ تک 170 کلومیٹر میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ کوہ قراقرم کے لیے گزرگاہ بھی ہے۔ گلگت بلتستان وادی شگر میں گائوں " تسر"کا حسن ہالینڈ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ پہاڑوں ندی چشموں کے بیچ لش ہریالی سبزہ پر ٹہلتی ہوئی گائے سحر انگیز ماحول پیش کرتی ہیں۔ تسرکا یہ وہ مقام ہے جہاں 2007میں عمران خان اپنی فیملی کے ساتھ آئے اور اپنے بیٹوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔

قدرت کے سر سبز میدان بلتستان والوں کا ہی مقدر ہیں۔"تسر "شگر وادی سے آگے دریائے شگر کے کنارے واقع ہے۔ ایک طرف کوہ قراقرم ہیں اور دوسری طرف دریا۔ تسر کو شگر میں ایک جنکشن کی سی حیثیت حاصل ہے یہاں سے آپ کے ٹو اور ارندو دونوں طرف سفر کر سکتے ہیں۔ ہم نے عبداللہ ناصر شگری کے گیسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرنے کے بعد چھوترون کا شیڈول بنایا گیسٹ ہاؤس سے گلاپور چوک سے نیچے جاکے شگر پل کراس کیا تھاسیل بندو وزیرپور گلاپور سے ہوتے ہوئے ہم چھوترون پہنچ گئے جہاں ہیڈ ماسٹر صاحب ہمارے انتظار میں تھے سکول وزٹ کرایا اور سکول کے مسائل سے آگاہ کرایا اور اپنے گھر میں دیسی کھانوں سے تواضع کی۔ اس کے بعد ہم گرم چشمہ وزٹ کرنے گئے صاف ستھرا ماحول اور پانی بھی گرم تھا اس کے بعد ہم واپس شگر سنٹر جانے کے لیے داسو کے راستے /کے ٹو/ باشو، الچوڑی، ہورچوس، حشوپی، تروپہ سے ڈرایئو کرتے ہوئے واپس عبداللہ ناصر شگری کا "طیبہ گیسٹ ہاؤس "اور ہشوپی گارڈچھورکاہ پہنچے۔ ہمیں K2 دیکھنے کا اشتیاق اونچے نیچے پتھریلے راستوں دریائوں سے گزارتا ہوا کے ٹو کے قریب لے گیا۔

پاکستان کی سب سے بلند جبکہ مائونٹ ایورسٹ کے بعد پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی بلندی 8611 میٹر ہے اور یہ سلسلہ کوہِ قراقرم میں واقع ہے،۔ وادی داسو میں پہنچے تو کے ٹو کے پہاڑی سلسلے دیکھ لئے۔ 2کو دو اطالوی کوہ پیمائوں نے 31 جولائی 1954ء کو سب سے پہلے سر کیا تھا۔ کے ٹو کو مائونٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے، کے ٹو پر 246 افراد چڑھ چکے ہیں جبکہ مائونٹ ایورسٹ پر 2، 238افراد جاچکے ہیں۔ 2014ء میں K-2 کو پہلی بار سر کرنے کے 60سال مکمل ہونے کے موقع پر پہلی بار جولائی 2014ء میں پاکستانی کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کیا۔ اگرچہ اس سے قبل پاکستانی کوہ پیما انفرادی طور پر کے ٹو کی چوٹی سر کر چکے تھے لیکن پہلی مرتبہ بطور ٹیم وہ ایک ہی وقت میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر پہنچے۔ وادی داسو سے شگر کے اندر کا سفر ابھی جاری ہے لیکن بتاتے چلیں کہ پاکستان کے بیشتر میدانی علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، لیکن گلگت بلتستان میں بہار نے ابھی قدم رکھا ہے۔ چھوترون کے گرلز ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر حموی نے استقبال کیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن شگر سید محمد عراقی جیپ میں ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔

چھوترون ہائی اسکول کی عمارت تو اچھی ہے لیکن طالبات کے لئے نہ سائنس لیب کا سامان موجود ہے نہ طالبات کی تعداد کے مطابق اساتذہ موجود ہیں۔ چھوترون میں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جوکہ سینکڑوں بیماریوں کا علاج سمجھا جاتاہے۔ پرانے زمانے میں جب بلتستان میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا تھا تو مقامی باشندے اسی گرم چشمے کی پانی میں پانچ منٹ رہتے تھے اور ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ہم نے بھی اس گرم چشمے میں ہاتھ منہ دھویا، خواتین کے لئے الگ چشمہ ہے۔ اس گاوں میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی شہر نہیں دیکھا اور تعجب کی بات یہ ہے اپنی مدد آپ اب بھی اس گائوں کے بزرگ وہ کام کرتے ہے جو آج کل کے جوانوں کے لیے شاید مشکل ہو۔ میزبان نے لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا۔" بگ آٹا " ایک خاص قسم کا آٹا ہے جو صرف چھوترون میں آگایا جاتا ہے۔ گندم کی طرح اس کے بیج پیس کر اس کے آٹے کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بگ ویٹ میں متعدد بیماریوں کا علاج ہے۔ یہ گائوں پہاڑی علاقہ ہے لوگ بیل بکریاں پال کے ان کے دودھ اور گوشت کھا بیچ کر نظام زندگی چلا رہے ہیں اور خالص چیزوں کے استعمال سے اس گائوں کے لوگ بہت طاقتور اور صحت مند ہے۔ چھوترون کے ہیڈ ماسٹر اور سٹاف کی میزبانی کے بعد سید عراقی صاحب نے ہمیں اپنی جیپ پر بٹھایا اور کے ٹو تک ڈرائیو کیا۔ عراقی صاحب ان سنگلاخ پہاڑی راستوں کے منجھے ہوئے ڈرائیور بھی ہیں۔

شگر کے راستے میں قریباً ہر گائوں کے اسکولوں کا وزٹ کیا۔ وادی شگر چاروں اطراف پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ صرف خوبانی نہیں، بلکہ چیری کے درخت بھی بہار کی آمد کے ساتھ ہی بھرپور جوبن میں دکھائی دیتے ہیں۔ عورتیں اور بچیاں چادریں پھیلا کر شہتوت توڑ رہی ہیں۔ خوبانی کے بیج کا تیل نکالا جا رہا ہے۔ گائے کا دیسی گھی بنایا جا رہا ہے۔ وادیِ شگر جسے بلتستان کی سب سے زرخیز وادی کہا جاتا ہے۔