اپنی روداد سناتے سناتے وہ رو دیا۔ مرد بھی رو دیتے ہیں۔۔ چار بہنوں کے بعد پیدا ہوا تو خاندان بھر میں خوشی منائی گئی۔ محلے میں لڈو بانٹے گئے۔ لاڈ پیار تو جو ملا سو ملا مگر جب ہوش سنبھالا پہلا جملہ ماں کا جو کانوں سے ٹکرایا وہ یہ تھا " میرا شہزادہ بڑا ہو کر افسر بنے گا "۔ بڑا ہوا اور سکول جانے لگا تو ماں کا دوسرا جملہ جو کانوں نے ٹکرایا وہ یہ تھا "بہنوں کا خیال رکھے گا ھمارے بڑھاپے کاسہارابنے گا"۔ میٹرک تک پہنچا تو ماں نے کہنا شروع کر دیا "میرے شہزادے بڑا افسر بننا ہے۔ باپ کا بازو بننا ہے۔ تیری چار بہنوں کی ذمہ داریاں ہیں ہمارے کاندھوں پر۔ ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں "۔
اسی بوجھ اور احساس ذمہ داری میں آگے بڑھتا رہا۔ جب سے ہوش سنبھالا میری زندگی کا کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجھے ماں باپ اور چار بہنوں کی ذمہ داری کا احساس نہ دلایا گیا۔ والدین کی امیدوں کےخوف نے انجینئر بنا دیا۔ اس دوران ایک لڑکی بھی پسند آگئی لیکن جوانی کا وہ فطری تقاضہ بھی والدین اور بہنوں کے احساس کے بوجھ کی نذر ہو گیا۔ اصل محبت زمانہ طالب علمی میں ہوتی ہے اور وہی زمانہ ہوتا ہے جب شادی کی آرزو اور خواہش سر چڑھ کر بولتی ہے مگر بہنوں کی شادیوں سے پہلے میری شادی کی سوچ جرم عظیم سمجھی جاتی تھی۔ پھر بھی ہمت کر کے ماں سے اپنی پسند کا ذکر کر دیا تو ماں نے اس خواہش کو بے شرمی سے تعبیر کیا۔
ماں نے ڈانٹ دیا " چار جوان بہنیں گھر بیٹھی ہیں اورتجھے اپنی شادی کی پڑی ہے"؟ جوانی کے جذبات کا خون کر دیا۔ محبت اور شادی کی خواہش کا گلہ گھونٹ دیا اور والدین کی توقعات کی سولی پر لٹک گیا۔ والد کا بازو بننا تھا۔ چار بہنوں کی ڈولی اٹھانی تھی۔ ماں کے تمام ارمان پورے کرنے تھے۔ متوسط طبقہ سے تعلق تھا۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے شام کو جاب کرنا بھی مجبوری تھی۔ ایک بہن نے بی اے کیا مناسب رشتہ ملا تو اس کی شادی کر دی۔
دوسری نے بی اے کیا اس کی شادی کردی۔ تیسری نے ایم اے کیا اس کی شادی کردی۔ پھر چوتھی بہن نے بی اے کیا تو اس کی بھی شادی کر دی۔ اس دوران میں انجینئر بن چکا تھا۔ معمولی ملازمت بھی مل چکی تھی۔ والد کو شوگر اور ماں کو جوڑوں کی تکلیف نے آ گھیرا۔ میری عمر تیس سال سے تجاوز کر چکی۔ ہر بہن کی شادی کے موقع پر سوچتا کہ عورت ذات کے مزے ہیں۔ بی اے کیا پھر بیاہ کیا۔ نہ پیروں پر کھڑا ہونا شرط نہ والدین بہن بھائیوں کی مالی و سماجی ذمہ داری کا بوجھ۔ اور ایک میں ہوں جس کی پیدائش پر پورے محلے میں لڈو بانٹے جاتے ہیں کہ بہنوں اور والدین کا سہاراپیدا ہوا ہے۔ پیدا ہوتے ہی سب کی توقعات کا یہ سہارا اپنی ذات میں کتنا تنہا اور پریشان ہے نہ ماں نے محسوس کیا نہ بہنوں نے۔
جوانی کی خواہشات کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر وقت سے پہلے بوڑھا ہونے لگا اور جب مالی طور پر کچھ سنبھلنے لگا تو ماں نے ایک اور جملہ کہا "اب تجھے شادی کر لینی چاہئے۔ مرنے سے پہلے تیری اولاد بھی دیکھ لیں "۔۔ اس سٹیج پر شادی بھی ایک ذمہ داری کے سوا کچھ محسوس نہ ہوئی کہ والدین کو گھر میں رونق چاہئے اور وہ اپنی مرضی کی بہو لے آئیں۔ ماں اور بہنوں کے بعد میری زندگی میں ایک اور عورت کی اینٹری ہوجاتی ہے جو گھر آتے ہی کہتی ہے " میں نے آپ کے لئے اپنے والدین بہن بھائی گھر شہر سب کچھ چھوڑا ہے "۔
بیوی کے یہ جذبات اور جملے نے بتا دیا کہ جناب مرد تم پر ذمہ داری کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہی نہیں بیوی، چار بہنوں اور ماں کی توقعات میں توازن برقرار رکھنا پل صراط عبور کرنے کے مصداق ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے دو بیٹیوں سے بھی نواز دیا۔ اس روز احساس ہوا کہ اے مرد آہن ذمہ داری اور توقعات کا سفر زیرو سے شروع ہونے جا رہا ہے۔ بھول جا تو نے والدین کے لئے کیا کچھ کیا۔ بہنوں اور ان کے بال بچوں کے ناز نخرے کیسے اٹھائے رکھے ہیں۔ بیوی کا مرید بننے میں کیا کیا جھیلنا پڑا۔ اب تو باپ بن چکا ہے۔
بہنوں کی ذمہ داری کا نصف سے زائد تیرے باپ نے ادا کیا تھا تو سہارااور سپورٹ تھا۔ آج تو خود باپ بن چکا ہے۔ اب سو فیصد کا ذمہ دار ہے۔ بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلائی۔ رشتے تلاش کئے۔ شادیاں کر دیں۔ ایک اپنے گھر میں خوش جبکہ دوسری کو طلاق لینا پڑی۔ طلاق یافتہ بیٹی کی چار سالہ بیٹی یعنی میری نواسی میری گود میں بیٹھی کھیل رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ اسلام کی صورت میں عورت سے بھی پہلے مرد کو کیوں پیدا کیا پھر فرشتوں کو اس مرد کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا؟ پہلے عورت کیوں پیدا نہ فرمائی؟ فرشتوں کو عورت کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں نہ دیا؟
خالق نے یہ اعزاز شاید اس منصب کی بدولت دیا جو مرد کو عورت کی ذمہ داری کے تحت سونپ دیا گیا تھا۔ والدین بہن بھائی بیوی اولاد کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کب جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھا وقت نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ آج میں اپنے باپ کی اس سٹیج پر کھڑا ہوں جہاں مجھے بھی بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض لاحق ہیں۔ معاشی گاڑی گھسیٹتے گھسیٹتے بدن نحیف ہو چکا ہے مگر اب نواسی کو ایک تندرست اور مضبوط نا نا کی ضرورت ہے، مالی مشقت اور ذمہ داریوں کی گاڑی کے پہیہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی سستانے کا موقع میسر نہ آسکا۔ نواسی گود میں بیٹھی کھیل رہی تھی اور میں پینسٹھ برس کی عمر میں پھر کم عمر ذمہ دار کے دور میں کھڑا تھا۔ لگا سفر رک گیا ہے۔
فرشتوں کا مجھے سجدہ کرنے کا سبب سمجھ آنے لگااور اس حدیث کی بھی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔۔ اور یہ سوچ کر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ میری ہر عورت خواہ میری ماں ہے بہن بیوی بیٹی یا نواسی پوتی ہے سب نے مجھ سے توقعات وابسطہ کر رکھی ہیں اور مجھے سب سے پہلے بطور ایک مرد سہارااور شیلٹر کے دیکھا جاتا ہے۔
میرا ایک بت بنا دیا گیا ہے جو نہ روتا ہے نہ ٹوٹتا ہے نہ کمزور ہوتاہے نہ ذمہ داریوں سے بھاگ سکتا ہے۔ لیکن عورت کا کوئی رشتہ یہ محسوس کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ مرد نہیں روتا مگر باپ روتا ہے۔ بیٹا کمزور ہو تاہے۔ شوہر گھبراتا ہے۔ بھائی پریشان ہوتا ہے۔ نانا دادا ٹوٹ سکتا ہے۔ اور کبھی تو ایسے حالات و واقعات امتحان و آزمائش میں پھنس جاتا ہے جہاں وہ خود کو بالکل تنہا کھڑا پاتا ہے۔ تمام رشتوں کا یہ واحد سہارا جس کی پیدائش پر لڈو بانٹے جاتے ہیں آج بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا اپنے زخم بانٹنے کی جسارت بھی نہیں رکھتا کہ خالق نے اسے مرد بنا دیا ہے، کفیل محافظ سہارا جیسا منصب سونپ دیا ہے۔
فرشتوں کا مجھے سجدہ کرنے کا راز تو اب منکشف ہورہا ہے۔۔ مرد کا سب سے بڑا کتھارسس عورت ہے۔ ایک مکمل عورت۔ لیکن اپنی شکایات گلے شکووں الزامات میں غرق دور حاضر کی آدھی عورت مرد پر رحم کھانے کوتیار نہیں کہ مظلوم کا لیبل فقط اس نے اپنے لئے اعزاز سمجھ رکھا ہے۔