انیس جولائی کو دی ہیگ میں قائم عالمی عدالتِ انصاف کے تمام پندرہ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا کہ مشرقی یروشلم اور مقبوضہ غربِ اردن پر اسرائیلی قبضہ اور وہاں مسلسل یہودی آبادکاری اور تعمیراتی سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور ہر اعتبار سے غیر قانونی ہیں۔ یہ بستیاں فلسطینیوں کے غصب شدہ علاقوں اور ان کے وسائل کو استعمال کرکے تعمیر کی جا رہی ہیں۔
جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی ہر قرار داد میں یہی کہا گیا کہ مقبوضہ علاقوں کی جغرافیائی ہئیت اور آبادی کے تناسب میں جبری تبدیلی کے عمل کا کوئی بین الاقوامی قانون جواز فراہم نہیں کرتا۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی تازہ رولنگ سنائے جانے کا وقت خاصا اہم ہے۔ اگر یہی رولنگ تیسری دنیا کے کس ملک یا روس اور ایران جیسے ممالک کے بارے میں ہوتی تو اب تک امریکا اور یورپی ممالک اس ملک پر سخت ترین پابندیاں لگا چکے ہوتے۔ اسرائیل کو سات خون معاف ہیں البتہ انسانی حقوق پر آٹھ آٹھ آنسو رونے والے مغربی ممالک کو اپنی ریاکاری بھی قائم رکھنی ہے لہٰذا انھوں نے بین الاقوامی عدالت کے لیے اپنا " احترام " ظاہر کرنے کے لیے کچھ مضحکہ خیز علامتی پابندیاں ضرور لگائی ہیں یا اس بابت سوچ رہے ہیں۔
مثلاً امریکا اپنے ہاں اب تک سات اسرائیلی آبادکاروں کے " مبینہ اثاثے " منجمد کر چکا ہے۔ کیونکہ انھوں نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ (تالیاں )۔
اسی طرح یورپی یونین نے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی سنگین منصوبہ بند پامالی کے جرم میں پانچ یہودی آبادکاروں اور تین تنظیموں پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی اکادکا آبادکاروں پر ایسی ہی علامتی پابندیوں کا نفاذ کیا ہے۔ مگر کسی ملک نے ان آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیوں کی قیادت کرنے والے سیاستدانوں پر پابندی عائد نہیں کی۔ ان میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو، وزیرِ خزانہ بیزلل سموترخ اور وزیر قومی سلامتی بین گویر بھی شامل ہیں۔
چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری جسٹن ویلبی نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے بارے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی تازہ ترین رولنگ کے بعد کچھ شرم کرے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعداد دو سو سے زائد ہے اور ان میں ساڑھے سات لاکھ آبادکار بستے ہیں۔ ان میں سے محض بیس پچیس آبادکاروں پر بین الاقوامی پابندیاں لگانا بذاتِ خود بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑانے کے برابر ہے۔
الٹا امریکا محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی رولنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں سے دو ریاستی حل کی جانب بڑھنے میں مزید رکاوٹیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی آبادکاروں نے غربِ اردن میں مزید چوبیس مربع کیلومیٹر زمین چوری کر لی ہے۔ یہ رقبہ تینتیس سو فٹ بال میدانوں کے برابر ہے۔ اس میں تین سو بائیس وائٹ ہاؤس، لندن کے سترہ ہائیڈ پارک اور نیویارک کے سات سینٹرل پارک سما سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذرایع کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے پر پانچ سو ستر فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ فلسطینیوں اور ان کی املاک پر یہودی آبادکاروں نے اس عرصے میں بارہ سو پرتشدد حملے کیے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد مکانات اور املاک کو بلڈوزرز استعمال کرکے گرایا گیا ہے۔ چنانچہ مزید تیرہ سو بچوں سمیت تین ہزار فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔
دو جولائی کو اسرائیل نے غربِ اردن کی وادی میں مزید ساڑھے بارہ مربع کیلومیٹر زمین سرکاری حکم کے تحت ہتھیا لی۔ پچھلے تیس برس میں کسی ایک وقت میں فلسطینی زمین کی چوری کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ زمین پر اس قبضے کی مہم کی قیادت وزیرِ خزانہ اور وزیرِ قومی سلامتی کے ہاتھ میں ہے۔
خبر ہے کہ امریکا کی بائیڈن انتظامیہ دونوں اسرائیلی وزرا کے خلاف پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے۔ اس اطلاع کے بعد وزیرِ قومی سلامتی بن گویر نے کہا کہ اگر امریکا نے کسی اسرائیلی اہلکار کے خلاف پابندی لگائی تو فلسطینی اتھارٹی کو اس کے تمام اداروں اور معاشی ذرایع کے ساتھ تحلیل کر دیا جائے گا۔ فلسطینی آزاد ریاست کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں گے۔
یورپی یونین کے نگراں گروپ نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انیس سو ترانوے کے اوسلو سمجھوتے کے بعد کسی ایک برس میں اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اتنے علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل نہیں کیا جتنا کہ پچھلے دس ماہ کے دوران کیا ہے۔
اس عرصے میں وہاں بارہ ہزار سے زائد نئے مکانات بنانے کی منظوری دی گئی ہے جب کہ مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاروں کے لیے مزید ساڑھے اٹھارہ ہزار مکانات بنانے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ تاکہ وہاں آباد فلسطینی اکثریت کو جلد از جلد اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ مکمل ہو سکے۔ اس کے بعد ان کی بے دخلی اور آسان ہو جائے گی۔
اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ غزہ کا حشر دیکھ کر غربِ اردن میں آباد فلسطینی عبرت پکڑیں گے اور اسرائیلی ریاست اور آبادکاروں کے خلاف تیسرا انتفادہ شروع ہونے سے قبل دس بار سوچیں گے۔ مگر غزہ کی پوری فلسطینی آبادی بے گھر ہونے کے باوجود گھٹنوں کے بل نہیں جھکائی جا سکی۔ آدھی آبادی پچھلے دس ماہ میں دس بار بے گھر ہو چکی ہے۔
سب کچھ گنوانے کے باوجود آج بھی غزہ سے اکادکا راکٹ اسرائیلی علاقے میں گر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ راکٹ کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا پا رہے مگر غزہ سے اڑنے والا ہر راکٹ حماس کو کچل دینے کے اسرائیلی دعوی کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ سوچئے اگر بھوکے پیاسے اہلِ غزہ سے اب تک اسرائیل کچھ نہ منوا سکا تو غربِ اردن کے بارے میں اس کے خوف کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔
اب تک تو ہم یہ سنتے آ رہے تھے کہ صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو واحد ملک ہیں جہاں پولیو ختم نہیں ہو سکا۔ اسرائیل کی مہربانی سے اب غزہ تیسرا خطہ بن گیا ہے جہاں پولیو کیسز دریافت ہو رہے ہیں۔ دنیا نے اس مرض پر اربوں ڈالر خرچ کرکے جو فتح پائی اب وہ فتح بھی متزلزل ہو رہی ہے۔ کیا یہ وائرس محض غزہ تک ہی رکے گا؟