تین اگست چودہ سو بانوے کو اسپین کی بندرگاہ پالوس سے تین مضبوط چوبی جہاز (سانتاماریا، پنتا، نینا) ہندوستان دریافت کرنے نکلے۔ تینتیس دن بعد انھیں زمین کے آثار نظر آئے۔ جسے وہ ہندوستان سمجھ رہے تھے وہ بحرہ کیربئین کا جزیرہ بہاماز نکلا۔ مقامی لوگوں نے انھیں مہمان سمجھ کر خوش آمدید کہا۔ بس یہی غلطی ہوگئی جس کا نتیجہ نہ صرف ان مقامی لوگوں نے سہا بلکہ آج پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ کولمبس نے نئی دنیا کے چار سفر کیے۔
کولمبس کے بارے میں درسی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک اطالوی جہاز ران تھا۔ جینوا کے ساحلی شہر میں پیدا ہوا۔ اس نے اسپین کی ملکہ ازابیلا کی چاکری اختیار کر لی۔ ملکہ نے اسے خوشیِ خوشی مشرق کی جانب سفر کی اجازت دے دی اور اس مہم جوئی کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی تاکہ کولمبس مشرق سے سونا اور مصالحے لا سکے۔
مگر جدید ہسپانوی اور اسرائیلی محققین نے سینہ بسینہ چلی آنے والی اس کہانی کو اب پرت در پرت کھول کے رکھ دیا ہے۔ کہانی دراصل اکتیس مارچ چودہ سو بانوے سے شروع ہوتی ہے جب شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے ایک فرمان جاری کیا کہ تمام بچے کھچے مسلمان اور یہودی کیتھولک عیسائیت قبول کر لیں ورنہ چار ماہ کے اندر اسپین چھوڑ دیں۔ بصورتِ دیگر سزا بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمان اور یہودی اسپین میں موجود تھے۔ اکثریت نے شمالی افریقہ کی جانب ہجرت کی۔ جو رہ گئے ان میں سے بہت سوں نے بظاہر عیسائیت قبول کر لی مگر درونِ خانہ اپنے عقیدے اور رسومات پر کاربند رہے۔ ایسے دوغلوں کے لیے ریاستی سطح پر " مرانوز " یعنی سور کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
جس جس پر شبہ ہوتا کہ اس نے محض جان بچانے کی خاطر تبدیلیِ مذہب کی آڑ لی ہے، اسے پادریوں کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا۔ کمیٹی مذہبی امتحان لیتی اور جو ناکام ہوجاتا اسے مجمع کے سامنے چوبی کھمبے سے باندھ کر زندہ جلا دیا جاتا اور اس کی املاک چرچ اور ریاست میں آدھی آدھی تقسیم ہو جاتی۔
نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کولمبس اطالوی نہیں بلکہ ہسپانوی یہودی تھا جس نے بظاہر عیسائیت قبول کر لی تھی۔ سرکاری ریکارڈ میں اس کا نام کرسٹوفر کولمبس نہیں بلکہ کرسٹو بل کولون تھا۔ گمان ہے کہ وہ شمالی اسپین میں گالیشیا کے ساحلی شہر پونٹے ویڈرا میں پیدا ہوا۔ یہاں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد بسی ہوئی تھی۔
کولمبس کا انتقال انیس مئی پندرہ سو چھ کو ہوا۔ مرنے سے پہلے کولمبس اپنی سمندری مہم جوئی کے سبب خوشحال ہو چکا تھا۔ بظاہر کولمبس کیتھولک عقیدے پر دنیا سے رخصت ہوا۔ بہت بعد میں کولمبس کے جو خطوط اور تحریریں برآمد ہوئیں ان سے کہانی میں ایک ٹوئسٹ آ گیا۔
کولمبس نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ اس کی دولت کا دسواں حصہ غربا کی مدد بالخصوص نادار لڑکیوں کی شادی پر خرچ کیا جائے۔ یہ وصیت اس دور کے یہودی دستور کے مطابق کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کولمبس نے ہدایت کی کہ اس کے ذمے ایک قرضہ ہے جسے لزبن میں رہنے والے ایک یہودی کو لوٹانا ہے۔
کولمبس کے خطوط کاستیلین اسپینش میں لکھے گئے ہیں۔ ہسپانیہ کے یہودی اسی لسانی لہجے میں گفتگو کرتے اور لکھتے تھے۔ کولمبس نے اپنے بیٹے ڈیگو کو جو خطوط لکھے۔ ان کی پیشانی پر عبرانی میں" بیت ہئی " لکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے اگر خدا نے چاہا (انشااللہ)۔ جب کہ بادشاہ فرڈیننڈ یا دیگر امرا کو کولمبس نے جو خطوط لکھے ان کی پیشانی پر بیت ہئی نہیں لکھا۔
کولمبس کو دراصل دو اگست چودہ سو بانوے کو اپنا پہلا تاریخی سفر شروع کرنا تھا۔ مگر اسے ایک دن آگے کر دیا گیا کیونکہ دو اگست کو ہیکل سلیمانی کی تباہی کی یاد میں منایا جانے والا مذہبی دن تیشا باآو پڑ گیا۔ یومِ سوگ کے موقع پر سفر نحس سمجھا جاتا ہے۔ کولمبس کے ساتھی ملاحوں میں وہ یہودی دوست بھی شامل تھے جو مذہب بدلنے کے بجائے کسی دور دراز سرزمین میں بسنے کے خواہش مند تھے۔
نصابی کہانی یہ ہے کہ کولمبس نے تحقیقی سمندری سفر کرنے کے لیے ملکہ ازابیلا کو اخراجات اٹھانے پر آمادہ کیا۔ مگر تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو یہودی تاجروں (لوئی سنتانجل اور گیبریل سانچیز) نے جو بظاہر کیتھولک تھے۔ اس سفر کے لیے کولمبس کو سترہ ہزار ڈوکات کا بلاسود قرضہ دیا۔ کولمبس نے بہاماز دریافت کرنے کے بعد یہ خوشخبری سب سے پہلے شاہ فرڈیننڈ یا ملکہ ازابیلا تک نہیں پہنچائی بلکہ پہلی تفصیلی اطلاع قرضہ دینے والے دونوں دوستوں کو پہنچائی اور یہ امید بھی دلائی کہ وہ نئی سرزمین میں رہنے والے قبائلیوں کو ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کی خوشنودی کے لیے عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ کر لے گا۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا کی حریت پسند افواج نے جارج واشنگٹن کی قیادت میں برطانوی جنرل لارڈ کارنوالس کی فوج کو شکست دے کر تیرہ آزاد ریاستوں کے اتحاد ریاستہائے متحدہ امریکا کی چار جولائی سترہ سو چھہتر کے اعلانِ آزادی کے تحت بنیاد رکھی۔
(کارنوالس کو بعد ازاں ہندوستان بھیجا گیا جہاں اس نے میسور کی سلطنت کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی کے دستوں کی قیادت کی اور ٹیپو سلطان سے فیصلہ کن جنگ کی)۔
جن شخصیات کو امریکا کے فاؤنڈنگ فادرز کہا جاتا ہے۔ ان میں الیگزینڈر ہملٹن کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی والدہ ریچل لیویان یہودی تھیں جب کہ والد جیمز ہملٹن اسکاٹش عیسائی تھے۔ الیگزینڈر ہملٹن نے برطانوی افواج کے خلاف متعدد جھڑپوں میں حریت پسند دستوں کی قیادت کی۔ انھوں نے تاسیسی کانگریس میں نیویارک اسٹیٹ کی نمایندگی کی۔ بعد ازاں کانگریس سے مستعفی ہو کر وکالت اختیار کی اور امریکی آئین کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ صدر جارج وانشگٹن کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ بھی رہے۔
جب امریکا آزاد ہوا تو اس وقت یہودی اگرچہ اقلیتوں میں بھی سب سے چھوٹی اقلیت تھے مگر " فاؤنڈنگ فادرز" کے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ ابتدا سے تھا۔ یہودی اقلیت چونکہ یورپ میں برتے جانے والے تعصب سے تنگ آ کے نئی سرزمین میں اتری تھی۔ لہٰذا اس نے جنگِ آزادی میں حریت پسندوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ صدر جارج واشنگٹن نے سترہ سو نوے میں رہوڈ آئی لینڈ کی یہودی عبادت گاہ کے رباعی کے نام خط میں یقین دلایا کہ یہودی اقلیت کو آئین کی چھتری تلے بطور ایک مساوی امریکی شہری اپنا کردار بلا خوف و خطر ادا کرنا چاہیے۔
امریکا کے دوسرے صدر جان ایڈمز نے اٹھارہ سو نو میں لکھے گئے ایک خط میں یہودیوں کو روئے زمین پر بسنے والا سب سے شاندار گروہ قرار دیا۔ بقول جان ایڈمز دنیا پر یہودیوں کے اثرات کسی بھی قدیم اور جدید گروہ سے زیادہ گہرے ہیں۔
جان ایڈمز نے اٹھارہ سو انیس میں اپنے ایک یہودی مداح کو لکھے گئے خط میں کہا کہ یہودیوں کو اپنے آبائی وطن (اسرائیل) واپسی کا پورا حق ہے۔ جب وہ وہاں بس جائیں گے تو امید ہے وہ اپنی بعض منفی خصوصیات کو وقت کے ساتھ ساتھ تیاگ کے اور رجعت پسندی جھٹک کے عیسائیت کا ایک روشن خیال تصور قبول کر لیں گے۔
جان ایڈمز کو کیا پتہ تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودی تو خیر کیا روشن خیال عیسائی بنیں گے بلکہ وہ روشن خیال عیسائیوں کو بھی اپنا " اندھ بھگت " بنا لیں گے۔
(امریکی سماج و سیاست میں تاریخی یہودی کردار پر گفتگو اگلے مضمون میں بھی جاری رہے گی)۔