پیگاسس یونانی دیومالا میں پروں والا وہ سفید افسانوی گھوڑا ہے جو پلک جھپکتے میں کہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے یہ اڑن گھوڑا نہیں دیکھا مگر جب اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنی این ایس او ایک سافٹ ویر تیار کر رہی تھی تو یقیناً اس کے دماغ میں وہ غیر مرئی گھوڑا ہو گا جو کسی کے بھی موبائل فون میں اتر کے پاتال کی خبر لا سکتا ہے۔
پہلی بار پیگاسس سافٹ ویئر کو دہشت گردی کے خلاف نائن الیون کے بعد چھیڑی جانے والی جنگ میں ایجاد یا استعمال ہونے والے اہم آلات کے تسلسل میں پیش کیا گیا۔ اگر آپ این ایس او کی ویب سائٹ پر جائیں تو پیگاسس کا نہایت معصومانہ تعارف پائیں گے۔
یعنی ایسا سافٹ ویئر جو دہشت گردی اور تخریب کاری سے نبرد آزما ان ممالک کے اداروں کو حکومتِ اسرائیل کی باضابطہ اجازت کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے جن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ تسلی بخش ہو اور جو اس سافٹ ویئر کو طے شدہ قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جرائم اور دہشت گردی کے خاتمے کے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
پیگاسس کا فی الحال کوئی توڑ نہیں۔ آپ کا فون کھلا ہے کہ بند کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس آپ کے فون پر ایک کال جائے گی۔ بھلے آپ یہ کال سنیں یا نہ سنیں یہ سافٹ ویئر آپ کے فون میں بیٹھ جائے گا۔ پھر آپ بھلے کال کریں، ایس ایم ایس کریں یا وٹس ایپ، انسٹا گرام جیسے فول پروف ایپس کے نشے میں رہیں۔ پیگاسس فون میں نصب کسی بھی سافٹ ویئر سے جاری یا وصول ہونے والا پیغام اسی وقت پڑھ لے گا جس وقت آپ اسے لکھ رہے ہوں گے یا وصول کر رہے ہوں گے۔ گویا آپ کے ڈیٹا کا توتا مکمل طور پر پیگاسس کے قبضے میں ہوگا۔
اب تک کوئی اینٹی وائرس پروگرام نہیں بنایا جا سکا جو پیگاسس کی موجودگی کا بروقت پتہ چلا سکے۔ اگر پیگاسس استعمال کرنے والے فریق کو معلوم ہو جائے کہ آپ کو اپنے فون میں کسی پراسرار گڑبڑ کا شبہ ہو چلا ہے تو پیگاسس اس فون سے وقتی طور پر غائب ہو جائے گا۔ یا اگر پیگاسس آپریٹر یہ سمجھے کہ اس نے آپ کے فون میں سے ضروری معلومات اچک لی ہیں اور اب کام کی کوئی شے نہیں تو پھر پیگاسس ساٹھ دن کے اندر خود کشی کر لے گا۔
دنیا کو پہلی بار اس ایپ کا پتہ دو ہزار گیارہ میں چلا جب متحدہ عرب امارات کے ایک منحرف شہری نے شبہے کی بنیاد پر اپنے فون کا فورنزک چیک اپ کروایا۔ فورنزک سے یہ تو معلوم ہوا کہ ڈیٹا سے چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے مگر کس نے کی یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ قرائن سے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی ایسا جاسوس ایپ ہے جس کا اس سے پہلے کوئی تکنیکی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ اس کے بعد چند جانی مانی فورنزک لیبارٹریوں نے کھوج کی صلاحیت بہتر کرنے کے لیے زیادہ عرق ریزی دکھانا شروع کی۔
دو ہزار سولہ میں اخبار گارجین میں ایک مضمون شایع ہوا جس میں پیگاسس کے بنیادی اوصاف کو تفصیلاً بیان کیا گیا۔ فرانسیسی اخبار لی موند کے مطابق جب نریندر مودی نے جولائی دو ہزار سترہ میں اسرائیل کا دورہ کیا اس کے بعد پیگاسس سسٹم خریدا گیا۔
دو ہزار اٹھارہ میں کینیڈا کی سرکردہ سائبر سیکیورٹی کمپنی سٹیزن لیب نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق بھارت سمیت پینتالیس ممالک کے اداروں کی پیگاسس تک رسائی ہے۔ دو ہزار انیس میں وٹس ایپ انتظامیہ نے ایک امریکی عدالت میں بیان جمع کرایا کہ اس کے کم ازکم چودہ سو صارفین جن میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں پیگاسس کا نشانہ بنے ہیں۔
شاید ہی فلسطینی اتھارٹی یا حماس کا کوئی اہم عہدیدار دعویٰ کر سکے کہ اس کا فون پیگاسس کی زد میں نہیں۔
جولائی دو ہزار انیس میں پاکستانی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کا ایک انٹرنل میمو متعلقہ اعلیٰ اہلکاروں کو بھیجا گیا۔ اس میمو میں کہا گیا کہ وٹس ایپ کے ذریعے اہم دستاویزات کی ترسیل سے پرہیز کیا جائے کیونکہ ایک دشمن ملک کی رسائی اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس تک ہو چکی ہے۔ نومبر دو ہزار انیس میں اخبار گارجین نے یہ اطلاع شایع کی کہ پیگاسس تک سڑسٹھ حکومتوں کی رسائی ہو چکی ہے۔
مگر اب سے دو ہفتے پہلے گارجین سمیت سترہ صحافتی اداروں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاناما لیکس کی طرز پر پیگاسس لیکس کی پہلی قسط شایع کر دی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس وقت کم ازکم پچاس ہزار افراد اس سافٹ ویئر کی زد میں ہیں یا ان کا نام ممکنہ جاسوسی کی فہرست میں ڈالا جا چکا ہے۔
دس ممالک پیگاسس کا بے تحاشا استعمال کر رہے ہیں ان میں میکسیکو سرِ فہرست ہے جہاں لگ بھگ پندرہ ہزار نام ممکنہ اہداف کی فہرست میں ہیں۔ دیگر ممالک میں ہنگری، روانڈا، آذربائیجان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قزاقستان اور بھارت کے نام شامل ہیں۔
ان میں سے ہر ملک نے اس رپورٹ کو "بے بنیاد " قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے بارے میں رپورٹ سے اندازہ ہوا کہ لگ بھگ دو ہزار ممکنہ اہداف کی فہرست بنائی گئی۔ ان میں راہول گاندھی اور ان کے ساتھی، درجنوں صحافی، جج، انسانی حقوق کے کارکن اور حاضر سروس سرکاری عہدیدار شامل ہیں۔
مودی کابینہ میں شامل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اشوینی ویشنو نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں پرزور تردید کی کہ سرکار پیگاسس کو اپنے شہریوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود موصوف کا نام بھی پیگاسس کے اہداف کی افشا فہرست میں شامل ہے۔ بھارت سے باہر پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سمیت لگ بھگ درجن بھر عہدیداروں کو بھارت کی جانب سے پیگاسس کا نشانہ بنانے کی یا تو کوشش ہو چکی ہے یا پھر ممکنہ اہداف میں یہ نام شامل ہیں۔
فرانس نے اس رپورٹ کی بنیاد پر یہ مدعا اقوامِ متحدہ کے منڈب پر زیرِ بحث لانے کا اعلان کیا ہے۔ جرمنی نے بھی اس رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تو پہلے ہی سے چیخ رہی ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ پیگاسس کا تو بس نام اچھل گیا ہے۔ دنیا بھر کی انٹیلی جنس ادارے ایک عرصے سے اس قابل ہیں کہ وہ ہم میں سے کسی کی کوئی بھی سرگرمی اور نقل و حرکت جب چاہیں جہاں چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ پیگاسس ان زیرِ استعمال آلات سے قدرے بہتر ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
اب سے چالیس پینتالیس برس پہلے جب کسی ماجھے ساجھے نے آئی ٹی، مصنوعی ذہانت اور ایپ کا نام تک نہیں سنا تھا۔ مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن نے یہ قصہ سنایا کہ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب بھی کوئی اہم بات سننی یا بتانا ہوتی تو وہ وزیرِ اعظم ہاؤس کے لان میں بیٹھ کر یا ٹہلتے ہوئے یہ کام کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے " مبشر اس جگہ کی دیواروں کے بھی کان ہیں۔"
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
(جون ایلیا)