جب تک بین الاقوامی قوانین طاقتور ممالک کی پالیسیوں سے متصادم نہیں تب تک وہ قابلِ قبول ہیں۔ جیسے ہی یہ قوانین طاقت کی دم پر پاؤں رکھتے ہیں تو طاقت کا نشہ قانون کو ہی کھدیڑنے کے درپے ہو جاتا ہے۔ یوں موجودہ ورلڈ آرڈر " جس کی لاٹھی اس کی بھینس " کی منزل سے ایک قدم اور قریب ہو جاتا ہے۔
اگر جمہوریت اور بین الاقوامی گورننس کے سب سے بڑے پرچارک امریکا کی ہی مثال لے لی جائے تو دوسری عالمی جنگ کے نتائج سے حاصل سبق کے سبب قائم ہونے والی تنظیم اقوامِ متحدہ کے ڈھانچے کی تشکیل میں امریکا اور اس کے سامراجی یورپی اتحادی (برطانیہ اور فرانس) یوں پیش پیش تھے کیونکہ ویٹو کی شکل میں ان کی چوہدراہٹ خطرے میں نہیں پڑ رہی تھی۔
یہ سپر پاورز اقوامِ متحدہ کے تنے کی چھ بنیادی شاخوں میں سے ایک یعنی عالمی عدالتِ انصاف اور اس کے عالمی دائرہ کار کی بھی پرجوش وکیل تھیں۔ انھیں اس شق پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا کہ عالمی عدالتِ انصاف جو بھی فیصلہ کرے گی اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔ اس عدالت میں جن ممالک نے سب سے زیادہ شکایات دائر کیں ان میں امریکا پیش پیش تھا۔
البتہ جیسے ہی انیس سو چوراسی میں عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ دیا کہ امریکا نکاراگوا کے اقتدارِ اعلیٰ کا احترام کرتے ہوئے وہاں مسلح و سیاسی مداخلت بند کرے۔ امریکا نے فوراً عدالت کو یاد دلایا کہ اس کے فیصلوں پر لازمی عمل درآمد کے لیے لازمی قدم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری سے مشروط ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سلامتی کونسل ان فیصلوں کو ویٹو بھی کر سکتی ہے اور امریکا بہرحال ایک ویٹو پاور ہے۔
گویا اگر کوئی ویٹو پاور عدالت کی نظر میں ملزم ٹھہرے تب بھی یہ ملزم عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد رکوا سکتا ہے۔ یعنی عملاً عالمی عدالت کے فیصلے نان ویٹو ارکان پر لاگو ہیں اور ویٹو پاورز کے لیے عالمی عدالت کے فیصلوں اور قانونی رائے کی اہمیت محض اخلاقی ہے۔ مان لے تو اس کی مہربانی نہ مانے تو کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔
یہی حال دو ہزار دو میں روم کنونشن کے تحت قائم ہونے والی جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) آئی سی سی کا بھی ہوا۔ امریکا نے روم کنونشن سے اصولی اتفاق کرتے ہوئے دستخط تو کر دیے مگر کانگریس نے آج تک اس فیصلے کی باضابطہ توثیق نہیں کی۔ چنانچہ عملاً امریکا آئی سی سی کے جاری کردہ وارنٹس اور فیصلوں پر عمل کا خود کو پابند نہیں سمجھتا۔
البتہ آئی سی سی کے چارٹر کے تحت اگر کسی رکن ملک میں ہونے والے جنگی یا انسانی جرائم میں کوئی ایسا ملک ملوث ہے جو آئی سی سی کا رکن نہیں تب بھی آئی سی سی اس ملک یا حکومت کے ارکان کو ملزم قرار دے سکتی ہے۔
امریکا نے اس پھندے سے بچنے کے لیے آئی سی سی کے ایک سو چوبیس ارکان میں سے ایک سو آٹھ رکن ممالک کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اگر ان کی سرزمین پر کوئی امریکی شہری کسی جرم میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے خلاف عدالتی کاروائی امریکا خود اپنے عدالتی نظام کے تحت کرے گا اور اسے آئی سی سی کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ بصورتِ دیگر امریکا اس ملک کی امداد بند کر سکتا ہے۔
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ جب آئی سی سی نے سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر، سابق یوگو سلاویہ اور بوسنیا میں جنگی جرائم کے ذمے دار سرب کمانڈروں، کمبوڈیا میں انسانیت سوز جرائم کے مرتکب سابق کھیمرروج رہنماؤں اور یوکرین میں جنگی جرائم کے مرتکب ولادی میر پوتن کے گرفتاری وارنٹ جاری کیے تو امریکا نے آئی سی سی کے فیصلوں کو سراہا۔
یہ وہی امریکا ہے جس نے نازی جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے نورمبرگ ٹریبونل میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اس ٹرائل کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہٹلر کے کئی ساتھیوں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا ہوئی۔ فرض کریں آج نورمبرگ ٹریبونل جیسی کسی عدالت میں جرمنی کے بجائے امریکا کو ویتنام، چلی، عراق اور افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم کے الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے تو سوچیے کیا ہوگا؟
چنانچہ جب انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر کریم خان نے دو ہفتے قبل فلسطین بالخصوص غزہ میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے تین کلیدی رہنماؤں کے وارنٹ جاری کرنے کا عندیہ دیا تو اسرائیل سے زیادہ امریکا آپے سے باہر ہوگیا۔ بارہ ارکانِ کانگریس نے صدر بائیڈن کو خط لکھا کہ وارنٹ جاری ہونے کی صورت میں آئی سی سی کے اہلکاروں کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کی جائیں۔
صدر بائیڈن نے پراسیکیوٹر کریم خان کے اعلان کو نامعقول قرار دیا۔ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کانگریس کے ساتھ مل کے آئی سی سی کے خلاف تادیبی کارروائی کا قانون بنانے میں تعاون کرے گی۔ سب سے سینیر ریپبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ آئی سی سی پراسیکیوٹر کا اعلان پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔ اسرائیل کو اس بارے میں ہرگز فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اگرچہ آئی سی سی کی رکن ایک سو چوبیس ریاستوں پر لازم ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے جاری کردہ کسی بھی وارنٹ پر حرف بحرف عمل کریں۔ یورپی یونین نے بادلِ نخواستہ کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو یا کوئی بھی وارنٹ یافتہ یورپ میں قدم رکھے گا تو اسے گرفتار کرنا ہی پڑے گا۔ مگر جدید قانون اور آئین کی ماں کہلائے جانے والے ملک برطانیہ نے ممکنہ وارنٹس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا ابتدا سے ہی رکن نہیں۔ بادی النظر میں اس پر اس عدالت کے ممکنہ وارنٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تو پھر اسرائیل پریشان کیوں ہے؟ نیتن یاہو کو یہ دھمکی کیوں دینا پڑی کہ میں تو دنیا میں کہیں بھی جا سکتا ہوں مگر اب آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان اپنی خیر منائیں۔
اسرائیل کو دراصل پریشانی یوں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی آئی سی سی کی رکن ہے۔ اور اگر رکنِ ملک کی حدود میں کوئی غیر رکن ملک یا گروہ بھی جنگی یا انسانی جرائم کا مرتکب ہوتا ہو تب بھی آئی سی سی گرفت کر سکتی ہے۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ " مجھ سے ایک سینئیر مغربی رہنما نے کہا کہ " انٹرنیشنل کرمنل کورٹ تو افریقہ جیسے براعظموں اور پوتن جیسے لفنگوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ تم اس پر دھیان کیوں نہیں رکھتے "۔
اگرچہ اسرائیل انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو نہیں مانتا مگر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا رکن ہونے کے باوجود اس عدالت کے صادر کردہ رفاہ میں فوج کشی روکنے کے احکامات کو بھی اس نے ہوا میں اڑا دیا۔ الٹا پچھلی ایک دہائی میں انصاف کے بین الاقوامی نظام کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اسرائیل نے کیا کیا حرکتیں کی ہیں۔ اگلے مضمون میں جائزہ لیں گے۔