اسرائیل مغرب کا ذہین لاڈلا ہے۔ پچھلے تہتر برس میں اسے مغرب بالخصوص امریکا سے جو اقتصادی و عسکری مدد ملی وہ محض وظیفہ سمجھ کے یا اللوں تللوں میں یا مالی خسارہ دور کرنے پر صرف نہیں کی گئی بلکہ اقتصادی خودکفالت، اگلے درجے کی اعلیٰ تحقیق و تدریس اور دفاعی خودکفالت کے لیے استعمال کیا گیا۔ چنانچہ آج اسرائیل کے لیے مغرب کی مالی مدد سے زیادہ عسکری، سفارتی و سیاسی پشت پناہی اہم ہے۔
گزشتہ ماہ جب اسرائیلی فضائیہ مسلسل گیارہ راتوں تک غزہ کے شہریوں کو نشانہ بناتی رہی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے عین بمباری کے بیچ اسرائیل کے لیے سات سو پینتیس ملین ڈالر کے اسمارٹ میزائلوں کی فراہمی کی منظوری دے دی۔
اسرائیل کے مختصر جغرافیے اور آبادی نے یہ کلیہ بھی ثابت کردیا کہ دادا گیری کے لیے ظاہری تن و توش سے زیادہ اہمیت ہمہ وقت تیاری اور آنکھیں کھلی رکھنے والی ایسی کسرتی ریاست و حکومت کی ہے جو بلا مروت و مصلحت اپنے اہداف حاصل کرنے کا کوئی موقع نہ گنوائے۔
ہر اسرائیلی شہری کے لیے تین برس کی فوجی خدمات انجام دینا لازمی ہے (صرف مذہبی طبقے کو استثنٰی حاصل ہے)۔ اگر دفاعی اخراجات کو دیکھا جائے تو گزشتہ برس اسرائیل کا فوجی بجٹ بائیس ارب ڈالر تھا۔ یعنی فی کس ڈھائی ہزار ڈالر۔ یہ اوسط دنیا کے سب سے بڑے دفاعی صارف امریکا کے فی کس اوسط سے بھی تین سو ڈالر زیادہ ہے۔
دو ہزار چودہ میں امریکی کانگریس نے اسرائیل امریکا اسٹرٹیجک شراکت داری ایکٹ کی منظوری دی۔ اس کے تحت مشرقِ وسطی کے حریف ممالک پر اسرائیل کی فوجی سبقت لازماً برقرار رکھی جائے گی۔ چنانچہ جب بھی سعودی عرب و امارات و مصر سمیت کسی عرب اتحادی سے امریکا اسلحے کا سودا کرتا ہے تو اس کی منظوری اسرائیل کی اسٹرٹیجک رضامندی سے مشروط ہوتی ہے۔
اسرائیل کو امریکا انیس سو اکیاون سے بھاری اقتصادی امداد بھی دیتا رہا۔ البتہ دو ہزار سات میں اسرائیل اقتصادی ترقی کے اس درجے پر پہنچ گیا کہ اسے اس امداد کی ضرورت نہ رہی۔
دو ہزار سولہ میں برک اوباما نے ایک دس سالہ منصوبے پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل کو دو ہزار چھبیس تک اڑتیس ارب ڈالر مالیت کی فوجی مدد فراہم ہو گی۔ یعنی تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر سالانہ۔
دیگر ممالک کے لیے تو امریکی امداد انسانی حقوق یا دہشت گردی کی پشت پناہی نہ کرنے یا جوہری عدم پھیلاؤ وغیرہ وغیرہ سے مشروط ہوتی ہے مگر اسرائیل پر ایسی کوئی قدغن نہیں۔ اسرائیل کو فوجی امداد کی فراہمی فلسطین اور علاقائی ممالک کے بارے میں اس کی عسکری و انتظامی و انسانی پالیسیوں سے بالکل الگ ہے۔
اگرچہ دو ہزار آٹھ سے اب تک اسرائیل غزہ پر چار بار فوج کشی کر کے ساڑھے تین ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک کر چکا ہے۔ مگر ہر مہم جوئی کے بعد اسرائیل کے لیے امریکی فوجی امداد کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی۔ امریکا کے برعکس یورپی یونین اسرائیل کی امتیازی پالیسیوں کی وقتاً فوقتاً دبے لفظوں میں مذمت تو کرتی ہے مگر انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے ایسا آج تک نہیں ہوا کہ کسی مغربی ملک نے علامتی طور پر ہی سہی اسرائیل کی فوجی امداد معطل کی ہو۔
گزشتہ بیس برس میں امریکا اسرائیل کو اٹھاون ارب ڈالر کی فوجی مدد فراہم کر چکا ہے۔ اس عرصے میں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کو پانچ ارب ڈالر کی اقتصادی امداد بھی دی گئی۔ مگر دو ہزار سولہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہ مدد بھی منجمد کر دی۔
امریکا اپنے اتحادیوں کو تربیتی سہولتوں، فوجی مشاورت اور اسلحہ خریدنے کے لیے معمولی شرح سود پر فارن ملٹری فنانسنگ اسکیم کے تحت گرانٹس اور قرضے بھی فراہم کرتا ہے۔ اس مد میں گزشتہ بیس برس کے دوران اسرائیل کو پچپن فیصد، مصر کو چھبیس فیصد، اردن کو چھ اعشاریہ چار فیصد اور پاکستان کو چار فیصد فنڈز فراہم کیے گئے۔ فارن ملٹری فنانسنگ سے فائدہ اٹھانے والے ممالک پر لازم ہے کہ یہ پیسہ امریکی اسلحے، تربیت اور مشاورت پر ہی خرچ ہوگا۔ البتہ اسرائیل کو دو ہزار اٹھائیس تک یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اس امریکی پیسے سے اپنی مقامی کمپنیوں سے بھی اسلحہ اور خدمات خرید سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکا نے اسرائیل میں اپنے ہنگامی استعمال کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ اور فوجی آلات بھی ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ البتہ اسرائیل کو اجازت ہے کہ وہ ایمرجنسی کی صورت میں اس ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اگرچہ اسرائیل کے تراسی فیصد ہتھیار ساختہِ امریکا ہیں۔ مگر خود اسرائیل بھی دنیا میں ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کی فہرست میں بارہویں نمبر پر ہے۔ اسرائیل نوے کی دہائی میں اس قابل ہو گیا کہ بیرونی ہتھیاروں پر سو فیصد تکیہ کرنے کے بجائے اپنی دفاعی صنعت کو بین الاقوامی معیار تک لا سکے۔ پچھلے دو عشروں میں اسرائیل امریکا سمیت تینتالیس ممالک کو ہتھیار و جنگی آلات بیچ چکا ہے۔ گزشتہ برس اس نے سولہ ممالک کو ساڑھے تین سو ملین ڈالر مالیت کے ڈرونز، میزائیل، لیزرگائیڈڈبم، ریڈار ٹیکنالوجی اور جاسوسی کے آلات فروخت کیے۔
اسرائیلی اسلحے اور ٹیکنالوجی کی عالمی مانگ میں سال بہ سال اس لیے بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دیگر اسلحہ ساز ممالک کے برعکس اسرائیل اپنی تمام فوجی ٹیکنالوجی فلسطینیوں، شامیوں اور لبنانیوں پر آزما کر اس کے موثر ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یعنی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟
اسرائیلی اسلحے کی پہلی گاہک جنوبی افریقہ کی گوری نسل پرست حکومت تھی۔ دونوں نسل پرست ریاستوں کے درمیان ستر کے عشرے میں شراکت داری قائم ہوئی حالانکہ اقوامِ متحدہ نے جنوبی افریقہ کا مکمل سیاسی و اقتصادی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ مگر اسرائیل نے گوری حکومت کو جوہری پروگرام میں بھی بھرپور مدد فراہم کی۔
اگر صرف سالِ گزشتہ کی بات کی جائے تو اسرائیل کے تینتالیس فیصد اسلحے کا خریدار بھارت، سولہ فیصد کا آزربائیجان، دس فیصد کا ویتنام اور چار فیصد کا خریدار امریکا رہا۔ آذر بائیجان نے آرمینیا کے خلاف گزشتہ برس جس طرح فیصلہ کن انداز میں جنگ جیتی اس نے اسرائیلی فوجی ٹیکنالوجی کی شہرت کو مزید چار چاند لگا دیے۔
فلسطینیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اگر مغربی ممالک فلسطین کے حل کو اسرائیل کی عسکری امداد سے نتھی کر دیں تو مسئلہ ایک برس میں حل ہو سکتا ہے۔
تو کیا اتنی سادہ سی بات کسی مغربی ملک کی سمجھ میں تہتر برس سے نہیں آ رہی؟ ہمارے یہ انسانی حقوق والے بھائی بہن بھی کس قدر سادے ہیں۔