یہ تو اب سب ہی جان چکے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات کا تالہ کھولنے کی کنجی نہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس ہے اور نہ ہی بھارت میں بی جے پی کے علاوہ کسی اور کے پاس ہے۔ پاکستان میں یہ کام کرنے کا اہل صرف وہ فریق ہے جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔
بھارت میں کسی کانگریسی حکومتِ(بالخصوص نہرو اور من موہن سنگھ) یا غیر کانگریسی مخلوط حکومت (بالخصوص مرار جی ڈیسائی اور آئی کے گجرال)نے تعلقات کو معمول پر لانے کی جب جب تھوڑی بہت کوشش کی آر ایس ایس سمیت دائیں بازو کی قوم پرست سیاسی طاقتوں نے وہ ادھم مچایا کہ تعلقات معمول پر لانے کی معمولی پیش رفت بھی چند قدم سے زیادہ نہ چل سکی۔
اسی طرح جب بے نظیر، نواز شریف یا آصف زرداری نے تعلقات کو نارمل کرنے کے لیے ذرا سی بھی ہل جل دکھائی تو ان کی حب الوطنی پر سوالات اٹھنے میں دیر نہیں لگی۔
لیکن جب واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے یا مودی اچانک لاہور میں اترے یا پھر پاکستان کی جانب سے فیلڈ مارشل ایوب خان نے انیس سو انسٹھ میں بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کی یا جنرل ضیا الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا گر آزمایا یا پرویز مشرف آگرہ جا پہنچے یا دو ہزار چار میں واجپائی کو دورہِ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان کی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی یا ابھی تین ہفتے پہلے آرمی چیف نے اپنا گھر ٹھیک کرنے اور ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کی پیش کش کی تو دونوں ممالک میں کسی نے اپنے کسی رہنما کی نیت پر شک کا اظہار نہیں کیا۔
مارچ کا مہینہ اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اس ماہ کے شروع میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے معمول کو ٹھنڈا کرنے کے عسکری سطح پر سمجھوتے، اٹھارہ مارچ کو اسلام آباد ڈائیلاگ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مصالحتی تجاویز، بائیس مارچ کو مودی کی جانب سے یومِ پاکستان پر مبارک باد کا خط، تئیس مارچ کو دلی میں دو برس کے وقفے کے بعد پاک بھارت دریائی کمیشن کا اجلاس، انتیس مارچ کو وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے نریندر مودی کو جوابی خط اور پھر دوشنبے میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی شرکت اور ایک دوسرے کی پالیسیوں کو برا بھلا کہنے سے پرہیز اور یکم اپریل کو پاکستان کے نئے وزیرِ خزانہ حماد اظہر کی جانب سے کپاس اور چینی کی بھارت سے خریداری کے اعلان اور پھر دو اپریل کو وفاقی کابینہ کی جانب سے فی الحال اس فیصلے کو کشمیر کی حیثیت کی بحالی سے مشروط کرنے سمیت دوطرفہ سفارتی تیزی اور موقف میں لچک اور سخت گیری کی ملی جلی کیفیات اور ایک دوسرے کے عزائم کے عمیق جائزے کی مشق کا اگر بالاکوٹ حملے کے بعد کے دو برس میں تعلقات کی سرد مہری سے موازنہ کیا جائے تو ماحول کی بتدریج بہتری کی فضا سے انکار مشکل ہے۔
البتہ اگر مجھ جیسا دودھ کا جلا پاک بھارت تعلقات کی پتھریلی زمین میں ہر چند برس بعد پھر سے اگنے والی ننھی منی کونپلوں کو دیکھے توخوشی سے زیادہ گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ماضی کے تجربات کے پس منظر میں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ کہانی کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اور کب تک؟
میرے کنفیوز ذہن میں واجپائی کی لاہور بس یاترا، پرویز مشرف کی آگرہ یاترا، من موہن سنگھ کی شرم الشیخ میں یوسف رضا گیلانی سے بات چیت میں کشمیر کو متنازعہ مسئلہ تسلیم کرنا، مودی کا لاہور میں اترنا، کرگل، ممبئی، اڑی، پٹھان کوٹ، پلواما، بالا کوٹ اور آرٹیکل تین سو ستر کی وفات آپس میں دھاگوں کی طرح الجھ جاتے ہیں۔ سائے کے پیچھے سایہ چلتا دکھائی دیتا ہے اور پھر بانورا من سمجھانے لگتا ہے کہ ضروری تو نہیں ہر رسی سانپ ہی ہو۔
کبھی کبھی مجھے پاکستان بھارت تعلقات یوں لگنے لگتے ہیں۔ جیسے مرگی کا روگی مہینوں بلکہ برسوں بھلا چنگا رہتا ہے، پر کسی بھی ایک دن اسے اچانک دورہ پڑتا ہے اور گرنے کے بعد اس کا بدن بل کھانے لگتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ ایسے نارمل ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں مگر اس خوف سے بھی نبرد آزما رہتا ہے کہ جانے کب پھر سے گر کے پچھاڑیں کھانے لگے۔ تب دل تسلی دیتا ہے کہ آج کل تو مرگی بھی قابلِ علاج ہے۔
کبھی یہ خیال اٹک جاتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات صرف اونچ نیچ اور الٹ پھیر کا نام نہیں بلکہ چوہتر برس میں ایک منافع بخش صنعت بن چکے ہیں۔ ایسی صنعت جس سے سرحد کے دونوں طرف ایک دوسرے سے نفرت پالنے والے اہلِ قلم و صحافت، نوکر شاہی، عسکر شاہی، سیاست، سفارت کاری، تعلیمی نصاب، جنگی تحقیق، مذہبی لابی اور ہتھیاروں کی تجارت وغیرہ سے جڑے سیکڑوں فیصلہ سازوں اور ماہرین اور موقع پرستوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے۔ کیا یہ سب دو طرفہ مراسم ٹھیک ہونے کے لیے درکار مفاداتی قربانی دینے پر کبھی آمادہ ہوں گے۔ اپنے پیٹ پر یوں آسانی سے لات پڑنے دیں گے؟
کشمیر کو بانٹنے والی لائن آف کنٹرول پر فائر بندی بہت اچھی بات ہے۔ دلی میں دریا کے پانی پر ہونے والی بات چیت اس سے بھی بہتر عمل ہے۔ کوویڈ سے متاثر عمران خان کے لیے نریندر مودی کی ہمدردی اور خوشگوار ہے۔ اور یومِ پاکستان پر مودی جی کی تہنیت تو بڑھیا بات ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کی خواہش تو بہت ہی کمال ہے۔ مگر یہ سب اتنا اچانک، اتنے کم وقت میں اتنی تیزی سے کیوں اور کیسے ممکن ہے۔
تو کیا بھارت چین کی طرف سے سرحد پر پڑنے والے مسلسل دباؤ کے سبب پاکستان سے لگنے والی سرحد کو فی الحال پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا پاکستان اپنی اقتصادی حالت کو مدِ نظر رکھ کے علاقائی امن کے لیے فعال ہونے پر زور دے رہا ہے، کیا نومنتخب امریکی صدر بائیڈن پاکستان پر معاملات سلٹانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ بھارت پوری توجہ سے چین کے خلاف امریکی حکمتِ عملی کا بھرپور ساتھ دینے کے قابل ہو سکے؟ یا پھر دونوں طرف کے تاجر نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔ اور یہ سعودی عرب اور امارات کیوں چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دوستی بھلے نہ بھی ہو مگر ورکنگ ریلیشن شپ ہی بحال ہو جائیں؟
یا پھر دونوں طرف کے کبوتر دونوں طرف کے بازوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آخر چکر کیا ہے؟ یونہی تو کوئی اچانک دوسرے پر ایویں ہی مہربان ہونے کی اداکاری نہیں کرتا۔
یہ اور اسی طرح کے سیکڑوں خیالات مجھے بادل دیکھ کر گھڑے پھوڑنے سے روک لیتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی یقین نہیں کہ جب تک آپ تلک میرے یہ وسوسے پہنچیں پاک بھارت تعلقات کو لے کر کوئی اضافی اچھی خبر بھی راستے میں مل جائے یا کوئی بری خبر پھر سے راستہ روک لے۔