سترہ جنوری انیس سو اکسٹھ کو امریکا کے چونتیسویں صدر جنرل ریٹائرڈ ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اپنے الوداعی خطاب میں دو نصیحتیں کیں۔
اول یہ کہ " یہی وقت ہے کہ خود کو، سماج کو اور ریاست کو اپنا آج بہتر کرنے کے لیے اپنے کل کے وسائل لوٹنے سے روکا جائے۔ یہی وقت ہے سوچنے کا کہ کیا ہم اپنی اگلی نسل کا مادی و ذہنی مستقبل لالچ کے ہاتھ گروی تو نہیں رکھ رہے۔ کیا ہم روح ِ جمہوریت کا اتنا اثاثہ چھوڑے جا رہے ہیں جس کے سہارے اگلی پیڑھی اپنے سفر کو سہولت سے آگے بڑھا پائے۔"
آئزن ہاور نے دوسری نصیحت یہ کی کہ " جو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہم نے اپنی ترقی و دفاع کی نیت سے تشکیل دیا تھا وہ رفتہ رفتہ نہ صرف ہماری سوچ بلکہ ہر شعبہِ زندگی پر غالب آ رہا ہے۔ اگر ہم نے اس تیز رفتار اثر کو لگام نہ دی تو کل اس کے ہاتھوں ہماری بنیادی آزادیاں و جمہوری اقدار بقائی خطرے کی زد میں ہوں گی۔ لہٰذا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سلامتی کا خبط آزادیاں نہ نگل لے۔ اس کے لیے ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔"
آئزن ہاور پیشے کے لحاظ سے پہلے فوجی اور پھر سیاستداں تھے لہٰذا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے بارے میں ان کا تجزیہ ہر گذرتے دن کے ساتھ اور نکھرتا چلا گیا اور آج تو بالکل عریاں حالت میں ہمارے سر پر تانڈو کر رہا ہے۔
جس طرح سرمایہ داری کو اپنی بقا کے لیے ہر آن نئے صارف اور منڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو ہر آن کسی حریف یا بحران کی شکل میں ڈریکولا کی طرح خود کو زندہ رکھنے کے لیے تازہ خون درکار ہے۔ چنانچہ حریف نہ بھی ہو تو حریف ایجاد کر لیا جاتا ہے۔ جنگ نہ بھی ہو تو عدم تحفظ کو منافع کی مشین میں بدل دیا جاتا ہے۔ امن کاری کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش کی کامیابی کا امکان ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی موت ہے۔ یعنی اس پورے جھمیلے کو بقا کی آکسیجن موت کے کاروبار سے ملتی ہے۔
انیسویں صدی میں تشکیل پانے والے جدید ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا پیٹ جب چھوٹی موٹی جنگوں سے بھرنے میں ناکام ہو گیا تو پھر اسے بھوک مٹانے کے لیے پہلی عالمی جنگ کی سطح کی خوراک کی ضرورت پڑی اور پھر یہ بھوک بڑھتی ہی چلی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ملٹری انڈسٹریل کمپیلیکس نے سیاست پر پوری طرح پنجے گاڑ لیے اور جملہ مدبرین و سیاست کار اس کمپلیکس کے دلالوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان دلالوں اور ان کے علاقائی طفیلیوں کے ذریعے تیسری دنیا میں نئی منڈیاں اور نئی جنگیں پیدا کی گئیں۔
سوویت یونین کے غبارے میں مغربی پروپیگنڈہ کے پائپ سے اتنی ہوا بھری گئی کہ ہر جانب سرخ ہی سرخ نظر آنے لگا۔ اس کے تدارک کے لیے زمین اور خلا میں اسلحے کی کھربوں ڈالر والی دوڑ شروع ہوئی۔ کیمونزم اور جوہری جنگ کا خطرہ چالیس برس تک بیچا گیا اور جب یہ خطرہ باقی نہ رہا تو پھر صدام حسین، القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بیس سالہ منصوبے نے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی شکم سیری کا وافر سامان کیا۔
عرب بمقابلہ عجم، عرب آمریت بمقابلہ عرب اسپرنگ، لیبیا، شام، یمن۔ جتنی رکھنے کی جگہ نہیں تھی اس سے زیادہ اسلحہ بک گیا۔ گویا چغد کا مال مسخرہ کھا گیا۔
اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میلہ بھی تقریباً لٹ گیا۔ اب کیا کریں؟ آخاہ! چین ہے نا نیا عالمی خطرہ۔ اگلے پچاس برس تک چین کے خطرے کو بیچا جائے گا۔ اس خطرے کی مارکیٹنگ اور پیکیجنگ تو ٹرمپ دور سے شروع ہو گئی تھی، مگر بائیڈن انتظامیہ اس خطرے کے پلڑے میں اور باٹ ڈال رہی ہے۔
کہانی وہی پرانی ہے بس ولن نیا ہے۔ پہلے سوویت یونین کا سیاسی، عسکری، ثقافتی گھیراؤ کیا گیا۔ اب چین کا ہانکا شروع ہے۔ وہی الزامات جو سوویت یونین پر لگائے گئے چین کے لیے بھی مخصوص ہو رہے ہیں۔ یعنی انسانی حقوق کی پامالی، علاقائی توسیع پسندی کی خواہش، عالمی معیشت پر قبضے کی کوشش، کاپی رائٹ قوانین کی چوری، ترقی پذیر دنیا کو قرضوں کی زنجیر سے باندھ کر اپنی مصنوعات کا ڈھیر لگانا، جمہوریت دشمنی وغیرہ وغیرہ وغیرہ…
حال ہی میں امیر صنعتی ممالک کے کلب جی سیون کی سربراہ کانفرنس میں بھی چینی خطرے کا تدارک چھایا رہا۔ یہ عہد کیا گیا کہ " سیدھے سادے بھولے بھالے غریب ممالک " کو چین کے ساہوکارانہ چنگل سے بچانے کے لیے جی سیون ممالک ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی انفرااسٹرکچر کو اوپر اٹھانے کے لیے چالیس ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے تاکہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کو دندان شکن جواب دیا جا سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جی سیون کے پانچ رکن ممالک سابق نوآبادیاتی طاقتیں ہیں۔ انھوں نے صدیوں ان ترقی پذیر ممالک کا خون چوسا جنھیں وہ آج چینی سامراج سے بچانے کے لیے اپنی آنکھیں نم ناک کیے ہوئے ہیں۔
جی سیون کانفرنس کے رہنماؤں سے سب سے زیادہ توقع یہ تھی کہ وہ کوویڈ ویکسین کے جملہ حقوق عام کر دیں گے تاکہ دنیا بھر میں تیزی سے یہ ویکسین ہر ایک تک پہنچ سکے۔ مگر جو کرنے کا کام تھا وہ تو نہیں ہوا۔ البتہ چین کے مقابلے کے لیے چالیس ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا خواب دکھا دیا گیا۔ لیکن تادمِ تحریر ایک بھی ترقی پذیر ملک نے اس پیش کش کا خیرمقدم نہیں کیا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ منجن کس قدر پرانا ہو چکا ہے۔
جی سیون کے بعد ناٹو سربراہ کانفرنس نے بھی چین کو آنے والے وقت کے لیے سب سے سنگین خطرہ قرار دے دیا۔ یعنی سوویت یونین کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی شدت میں کمی کے سبب ناٹو کے وجود کو جو جوازی و روزگاری خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ چین کے خطرے نے اسے اگلے کم ازکم پچاس برس کے لیے ٹال دیا۔
مگر ایک مشکل ہے۔ پہلی بار یوں لگ رہا ہے کہ مغرب سوچ کے اعتبار سے اس وقت باقی دنیا سے کم ازکم بیس برس اور چین سے کم ازکم پچاس برس پیچھے چل رہا ہے۔ امریکا نمبر ون نہیں رہا۔ یہ سمجھتے سمجھتے امریکا کو ابھی کم ازکم بیس برس اور لگیں گے۔ چین کو کوئی جلدی نہیں۔ چین کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ سوویت یونین نہیں ہے جس کی الگ تھلگ معیشت اوپر نیچے ہونے سے مغرب کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
چین جانتا ہے کہ کسی کی پسند یا ناپسند سے الگ وہ دنیا کی سب سے بڑی صنعتی فیکٹری ہے۔ امریکا سمیت کوئی ملک چین سے مال خریدنا بند نہیں کر سکتا۔ حالانکہ امریکا، یورپی یونین اور بھارت سمیت ہر ملک اور خطے سے تجارت میں توازنِ ادائیگی چین کے حق میں ہے۔ سوویت یونین جب ڈوبا تھا تو صرف سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے چند ممالک ہی ڈوبے تھے۔ چین ڈوبا تو سب ڈوب جائیں گے اور یہ بات چین سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
رہی بات ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی تو وہ چین سے حقیقی جنگ نہیں چاہتا بلکہ چین کے خطرے کو زندہ رکھ کے روزی روٹی کمانا چاہتا ہے۔ چین کو بھی غالباً اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ مغربی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی آدھی اسمبلی لائن چین سے ہو کر ہی گذرتی ہے۔