انسان کبھی نہیں بدلتا۔ بس زمانہ بدلتا ہے۔ جب سے پہلی ریاست وجود میں آئی تب سے اب تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں ناکہ بندی اور محاصرے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ محاصرہ زدہ علاقے کے عام لوگ بھی جب جنگ کا ایندھن بنیں گے اور ان پر عرصہِ حیات تنگ ہوگا تو وہ اپنے حکمران یا منتظم یا سپاہ سالار پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ حملہ آور کی شرائط تسلیم کر لیں تاکہ محاصرے یا ناکہ بندی کے نتیجے میں بھک مری، قحط یا بیماری سے نجات مل سکے۔
مگر تاریخ میں ایسی بھی ان گنت مثالیں ہیں کہ محاصرہ زدہ لوگوں نے حملہ آوروں کی انسانی بلیک میلنگ کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور غلامی پر موت کو ترجیح دی۔ یا پھر اپنی ثابت قدمی سے دشمن کو اتنا تھکا دیا کہ وہ خود محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ تاہم مہذب کہلانے والی جدید حکومتوں نے اس حکمتِ عملی کو ترک کرنے کے بجائے اسے ہلاکت خیز صنعت کی شکل دے دی ہے۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ انیس سو اکیانوے سے دو ہزار تین کے درمیان اقوامِ متحدہ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق کی اقتصادی ناکہ بندی کی تھی۔ اس کے سبب پانچ لاکھ سے زائد عراقی سویلینز کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ یہ وہ اموات ہیں جو جنگ میں مرنے والے عراقیوں کے علاوہ ہیں۔ اس بابت جب صدر بل کلنٹن کی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایک ڈکٹیٹر (صدام حسین) کی معزولی کے لیے پانچ لاکھ جانوں کا اتلاف کوئی بڑی قیمت نہیں۔
اس ناکہ بندی کے ذریعے خشک دودھ، سکے والی پنسلیں، ڈائپرز، طبی آلات، حتی کہ قلم اور کاپیاں تک عراق نہیں پہنچنے دی گئیں۔ امریکا کا کہنا تھا کہ جن اشیا کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی ہے وہ سب دوہرے استعمال کی چیزیں ہیں۔ یعنی ان کا سویلین اور فوجی استعمال دونوں ممکن ہیں۔
اسی منطق کو دو ہزار سات سے آج تک امریکا کا ہونہار ترین شاگرد اسرائیل نہایت چابک دستی سے استعمال کر رہا ہے۔ جب دو ہزار چھ میں فلسطینی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حماس نے غزہ میں پی ایل او کا انتخابی صفایا کرکے ایک سو بتیس میں سے چوہتر پارلیمانی نشستیں جیت لیں تب بھی تمام تر جمہوری تقاضوں کے سائے میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو امریکا سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حماس کو ایک دھشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اس موقف کو اسرائیل نے غزہ کی مکمل زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کرنے کے موثر ہتھیار کی شکل دے دی۔ یوں غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی گنجان کھلی جیل کا خطاب مل گیا۔ جس میں تئیس لاکھ قیدی رہتے ہیں۔
انسانی حقوق سے متعلق ایک سرکردہ اسرائیلی تنظیم گیشا نے طویل تحقیق کے بعد حال ہی میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان فلسطینیوں کی آمد و رفت اور لین دین پر اسرائیل نے کڑی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔ دو ہزار سات سے غزہ کی جامع اقتصادی ناکہ بندی جاری ہے۔ اس حکمتِ عملی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے اس وقت کے وزیرِ اعظم یہود اولمرت کے کے مشیر ڈوو ویسگلاس نے کہا کہ ہم اہلِ غزہ کو خوراک کی بس اتنی کیلوریز دینے کے حق میں ہیں جو کسی انسان کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوں۔
اس عرصے میں غزہ کی آبادی کا گزارہ سرنگوں کے اس سلسلے سے ہوتا رہا جن کے ذریعے مصر سے بنیادی ضروریات کا سامان اسمگل کیا جاتا تھا۔ بعد میں اسرائیل نے یہ سرنگیں بھی تباہ کر دیں۔
اسرائیل غزہ کی روزمرہ زندگی کو ہر اعتبار سے محتاج رکھنے کے معاملے میں اتنا سنجیدہ ہے کہ مئی دو ہزار دس میں اس نے ترکی سے دس ہزار ٹن اشیاِ ضرورت لے کر غزہ کی جانب آنے والے بحری قافلے " فریڈم فلوٹوئیلا "کو بھی نہ بخشا اور اس امدادی بیڑے کے سب سے بڑے جہاز " ماوی مرمرا " پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کرکے نو امدادی کارکنوں کو ہلاک کر دیا اور سامانِ رسد بھی ضبط کر لیا۔
اس کارروائی کی عالمی سطح پر مذمت کے سبب اسرائیل نے کچھ اشیاِ ضرورت کی ترسیل پر پابندی عارضی طور پر نرم کر دی۔ اس نرمی پر انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم گیشا نے اپنی ویب سائٹ پر طنزیہ تبصرہ کیا کہ " دھنیے کو غزہ پہنچنے کی اجازت یہ اطمینان کرنے کے بعد دی گئی ہے کہ دھنیا اسرائیلی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے"۔
اسرائیل نے دوہرے استعمال کی ممنوعہ اشیا کی فہرست میں پانی اور سیوریج پمپوں کو بھی شامل کر لیا۔ دو ہزار اٹھارہ میں لگ بھگ ایک ہزار اشیا کی غزہ کو فراہمی پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں عروسی جوڑے، ان سلا کپڑا، پاستا، بسکٹ، مٹھائی، الائچی، دھنیا، ادرک، جام، اخبارات، نوٹ بکس، ماہی گیری کی ڈور، سلائی مشین، ٹریکٹروں کے فاضل پرزے، موسیقی کے آلات، بچوں کے دودھ کی بوتلیں، بے بی ڈائپرز، بے بی وائپس، ڈبہ بند خوراک، کھلونے، پین اور پینسلیں، باربرداری کے گدھے، مرغی کے چوزے، ان چوزوں کی ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے ڈبے، کنگھے، بوتل بند پانی، ٹائلٹ پیپر، پٹرول، گیس سلنڈرز اور اے فور سائز کے کاغذ بھی شامل ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد سویلین اور فوجی استعمال کی دوہری اشیا کی فہرست میں آلاتِ جراحی، مریضوں کو بے ہوش کرنے والی ادویات، وینٹیلیٹرز، آکسیجن سلنڈر، ایکسرے مشینیں، بیساکھیاں، کھجوریں، سلیپنگ بیگ، کینسر کی ادویات، میٹرنٹی کٹس اور پانی صاف کرنے والے آلات بھی شامل کر دیے گئے۔ اور جب تنگ آمد بجنگ آمد غزہ کے باسیوں نے خود کو قید کرنے والی باڑھ توڑی تو وہ ظالم اور اسرائیلی مظلوم کہلائے۔