ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بعد اس کے برابر کی اگر کوئی سلطنت قائم ہوئی تو وہ سلطنتِ ریلوے تھی۔ لنڈی کوتل سے چنائی تک اور کراچی سے گوہاٹی تک شرقاً غرباً شمالاً جنوباً ناپا جائے تو رسائی کے اعتبار سے شائد اورنگ زیب کی سلطنت سے بھی بڑی۔
تاجِِ برطانیہ نے نوے برس کی بھرپور بادشاہت میں جو ترکہ چھوڑا اس میں دو ایسے لاڈلے محکمے بھی تھے جن کے بارے میں انگریز بہادر آخری وقت تک کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح تقسیم ہونے سے بچا لے۔ یعنی برٹش انڈین آرمی اور انڈین ریلوے۔ مگر پارٹیشن کے نتیجے میں فوج اور ریلوے کے بادلِ نخواستہ دو ٹکڑے ہونا ناگزیر تھے۔ بلکہ ریلوے کے تو تین ٹکڑے ہوئے۔ انڈین ریلوے، پاکستان ویسٹرن ریلوے (مغربی پاکستان) اور ایسٹ بنگال ریلوے (مشرقی پاکستان)۔
گزشتہ مضمون میں ہم نے پاکستان ویسٹرن ریلوے کا تفصیلاً ذکر کیا۔ مگر نئی نسل کی آگہی کے لیے ریلوے کے اس ٹکڑے کا بھی تھوڑا بہت حق بنتا ہے جو ہمارے ساتھ بھلے اب نہ ہو لیکن قومی ریلوے کی تاریخ اس کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔
موجودہ مغربی پاکستان کے علاقے میں ایک سو ستر کلومیٹر طویل پہلا ریل ٹریک کراچی اور کوٹری کے درمیان بچھایا گیا اور اس کا افتتاح تیرہ مئی اٹھارہ سو اکسٹھ کو ہوا۔ جب کہ اگلے برس بنگال میں پندرہ نومبر اٹھارہ سو باسٹھ کو درسنا اور جگاتی کے درمیان تریپن کلومیٹر کا ٹریک ٹریفک کے لیے کھولا گیا۔
سابقہ مشرقی پاکستان کی حدود میں پہلا پندرہ کلومیٹر ریلوے ٹریک ڈھاکا اور نرائن گنج کے درمیان اٹھارہ سو پچاسی میں مکمل ہوا۔ مئی اٹھارہ سو پچانوے میں چٹاگانگ اور کومیلا کے درمیان ڈیڑھ سو کلومیٹر اور لکسم اور چاند پور کے درمیان پچاس کلومیٹر کا ٹریک مکمل ہوا۔
تقسیم کے بعد مشرقی بنگال کے حصے میں جو ریلوے نظام آیا اسے آسام بنگال ریلوے سے الگ کر کے ایسٹرن بنگال ریلوے کا نام دیا گیا۔ یکم فروری انیس سو اکسٹھ کو اس کا نام بدل کے پاکستان ایسٹرن ریلوے رکھا گیا۔ اگلے برس اس کا انتظام مرکز سے صوبے کو منتقل کر دیا گیا اور اس کی نگرانی کے لیے ایک نیم خود مختار ریلوے بورڈ بنا دیا گیا۔ انیس سو اکہتر میں اس کا نام بنگلہ دیش ریلوے ہو گیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ریلوے ٹریک میں اب تک محض پچانوے کلومیٹر کا ہی اضافہ کیا جا سکا۔
مغربی پاکستان میں آٹھ ہزار پانچ سو اکہتر کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک تھا اور مشرقی پاکستان میں دو ہزار سات سو ساٹھ کلومیٹر۔ پاکستان ویسٹرن ریلوے میں عملے کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار پانچ سو چوالیس اور ایسٹرن ریلوے میں چون ہزار سات سو نفوس تھی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان ریلوے میں جتنے غیر مسلم ملازم تھے ان میں سے اکثر دیگر محکموں کی طرح انڈین ریلوے میں ٹرانسفر ہو گئے۔ جب کہ بہار اور مشرقی اتر پردیش کے زیادہ تر مسلمان ریلوے ملازمین نے مشرقی بنگال میں ہجرت کے بعد ایسٹرن بنگال ریلوے میں شمولیت اختیار کی۔ اگر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بہار اور مشرقی یوپی سے ہجرت کرنے والے ملازمین کی مشرقی بنگال ریلوے میں خاصی بڑی تعداد تھی۔ بالخصوص راجشاہی اور چٹاگانگ میں بسنے والے غیر بنگالیوں میں سے ہر دوسرے یا تیسرے گھرانے کا ایک یا ایک سے زائد فرد ریلوے کا ملازم تھا۔ ان میں سے زیادہ تر نوسکھیے نہیں تھے بلکہ برٹش دور کا ملازمتی تجربہ ساتھ لائے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان مہاجروں کو چوبیس برس میں دوسری بار بے گھری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے سبب ریلوے کی کارکردگی پر بھی اثر پڑا۔ البتہ اگلے پانچ برس میں بنگلہ دیشی ریلوے رفتہ رفتہ آزادی سے پہلے کے دور کے برابر بحال ہو گئی۔
دو ہزار تین میں بنگال، مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش ریلوے کی تاریخ اور اتار چڑھاؤ کو محفوظ رکھنے کے لیے ریلوے ہیڈکوارٹر چٹاگانگ میں میوزیم بنا دیا گیا۔ اسی برس اسلام آباد میں گولڑہ ریلوے اسٹیشن کو ریلوے ہیرٹیج میوزیم میں بدل دیا گیا۔ مگر یہ خطرہ کس حد تک حقیقی ہے کہ خود محکمہ ریلوے کسی روز ایک بڑے سے ہیرٹیج میوزیم میں بدل جائے؟
اگر املاک کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ریلوے کا شمار آج بھی امیر ترین قومی محکموں میں ہوتا ہے۔ ریلوے ایک لاکھ اکہتر ہزار ایکڑ رقبے کا مالک ہے۔ اس میں سے تین ہزار ایک سو اسی ایکڑ ناجائز قابضین کے تصرف میں ہے۔ مگر مجموعی تناسب سے دیکھا جائے تو ننانوے فیصد رقبہ آج بھی ریلوے کے ہی قبضے میں ہے۔ اس رقبے کو کاروباری سلیقے سے استعمال کرنے کی خواہش ہر سرکار کے سینے میں انگڑائی لیتی رہی۔
مگر اتنا بڑا زمینی سرمایہ ہونے کے باوجود ریلوے کا محکمہ اپنے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی وفاقی وزارتِ خزانہ کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ انیس سو ستتر کے بعد آنے والی ہر حکومت نے ریلوے کو پہلے کی طرح خودکفیل ادارہ بنانے کے لیے بھلے کوئی مربوط حکمتِ عملی بنائی ہو کہ نہیں البتہ یہ اعلان برابر ہوتا رہا کہ ریلوے کو اس حالت تک گزشتہ ادوار کی غفلتوں نے پہنچایا ہے۔
سال بہ سال گزشتہ ادوار مختصر ہونے کے بجائے اور طویل ہو جاتے ہیں اور اب تو ان "گزشتہ ادوار " کی لمبان لگ بھگ نصف صدی کو چھونے لگی ہے (اگر انیس سو تہتر چوہتر کے اولین خسارہ زدہ برس سے گنا جائے)۔
پاکستان میں اب تک ڈھائی درجن سیاستداں، جرنیل اور بیوروکریٹ وزیرِ ریلوے کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں۔ ان میں چار وزرائے ریلوے محمد خان جونیجو، یوسف رضا گیلانی، میر ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت حسین ترقی پا کر وزیرِ اعظم بھی بنے۔ ایک صاحب شیخ رشید احمد دو بار (مشرف دور اور عمران حکومت) میں وزیرِ ریلوے رہ چکے ہیں مگر وہ بھی ریلوے کے بحران کا ذمے دار " سابق ادوار" کو قرار دیتے ہیں۔
بطور وزیر ریلوے شائد ان کی شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انھیں داخلہ کی کلیدی وزارت دے دی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب وزارتِ داخلہ بھی ریلوے کی طرح چلائی جائے گی؟
شیخ رشید کی جگہ لینے والے موجودہ وزیرِ ریلوے اعظم سواتی نے آتے ہی مژدہ سنا دیا کہ پچھلے پچاس برس میں (گویا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد) ریلوے کو ایک اعشاریہ دو ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ اس میں سے نوے فیصد خسارہ گزشتہ بیس برس میں ہوا (یعنی پرویز مشرف کے دور سے اب تک)۔ بقول سواتی صاحب ریلوے کو اوسطاً تیس سے پینتیس ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
دو ہزار تیرہ سے سترہ کے پانچ برس میں (یعنی مسلم لیگ نون کے دور میں) ریلوے کی آمدنی ایک سو سینتالیس ارب اور خرچہ ایک سو پچپن ارب روپے ہوا۔ یعنی آٹھ ارب روپے کا خسارہ۔ مگر گزشتہ اور موجودہ مالی سال اس اعتبار سے خاصا تباہ کن رہا۔ ایک تو خود ریلوے کی بدانتظامی، اوپر سے کوویڈ کا دھچکا۔ یعنی مل ملا کے دو ہزار اٹھارہ انیس کا تینتیس ارب روپے کا خسارہ دو ہزار انیس بیس میں بڑھ کر پچاس ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
اگلے مضمون میں ہم اعداد و شمار کے اس خساروی گورکھ دھندے کو سلیس اردو کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ بھی دیکھیں گے کہ متحدہ ہندوستان کی انگریز حکومت جتنے افسروں کی مدد سے پوری انڈین ریلوے کامیابی سے چلا رہی تھی۔ اتنے ہی افسروں کی مدد سے پاکستان ریلوے کیسے اتنی کامیابی سے خسارے میں اضافہ کر رہی ہے۔ (قصہ جاری ہے)۔