ایک اچھی خبر یہ ہے کہ نو برس کے وقفے سے استنبول تا اسلام آباد براستہ زاہدان مال بردار ریل سروس بحال ہو رہی ہے۔ کارگو ٹرین اپنا سفر بارہ دن میں مکمل کرے گی۔ دو ہزار نو سے گیارہ کے درمیان آٹھ مال بردار ٹرینوں نے ترکی اور پاکستان کے درمیان سفر کیا اور پھر یہ سروس عدم دلچسپی کے سبب معطل ہو گئی۔
ریلوے نے خود کو خسارے سے نکالنے اور اپنا انتظامی و مالی بوجھ بانٹنے کے لیے دو ہزار دس میں نجی و سرکاری شعبے کی شراکت داری کا بھی تجربہ کیا۔ تین ٹرینوں کا آپریشن نجی شعبے کے حوالے کیا گیا۔ لیکن ریلوے بیوروکریسی کی روایتی اڑچن کاری اور نجی آپریٹرز کی جانب سے واجبات کی بروقت ادائیگی میں ناکامی کے سبب یہ تجربہ بھی زیادہ سودمند ثابت نہ ہو سکا۔ حالانکہ کئی ممالک میں ریلوے انفرااسٹرکچر کے استعمال کی فیس کے عوض نجی شعبے کے استفادے کی سہولت کا مثالیہ خاصا کامیاب ہے۔
تاجروں اور صنعت کاروں سے پوچھا جائے کہ وہ ریلوے کی باربردار سروس پر روڈ ٹرانسپورٹ کو کیوں ترجیح دیتے ہیں جب کہ ریلوے کو نسبتاً زیادہ محفوظ کارگو سروس سمجھا جاتاہے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کرپشن اور جوڑ توڑ۔
ایک مستعد کارگو سروس کے لیے بنیادی عنصر مناسب کرائے پر مال کی ایک جگہ سے دوسری جگہ بروقت منتقلی ہے۔ مگر ریلوے میں فریٹ وین کی بکنگ بنا پیسے، خوشامد یا پرچی کے بغیر حاصل کرنا یا وقت پر مال کا ایک منزل سے دوسری جگہ نہ پہنچنا عام بات ہے۔ کارگو کا عملہ چونکہ سرکاری نوکر ہے لہٰذا وہ نجی شعبے کے برعکس کسی کو جوابدہ بھی نہیں۔ نہ ہی اسے معطلی یا برطرفی کا ڈر ہے۔
دوسری جانب ریلوے کو بھی دیگر سرکاری محکموں اور نجی شعبے سے وہی شکایت ہے جو عام طور پر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو رہتی ہے۔ یعنی کارگو سروس کی مد میں ریلوے کے کروڑوں روپے دوسروں پر واجب الادا ہیں اور ان پیسوں کو نکلوانا یا تگ و دو ایک مشکل کام ہے۔ چنانچہ پہلے سے ادھ موئے ریلوے کا خسارہ اور بڑھ جاتا ہے۔
ایک اور مسئلہ کارگو ٹرینوں کے ٹائم ٹیبل کا ہے۔ اس کے بارے میں تاجر سمجھتے ہیں کہ یہ ٹائم ٹیبل روڈ ٹرانسپورٹ والوں کی ملی بھگت سے ٹرکنگ کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے نظریے سے مرتب ہوتا ہے۔ جب ٹائم ٹیبل ہی کاروبار دوست نہ ہوگا اور کارگو ویگنوں کی بروقت فراہمی مٹھی گرم کرنے سے مشروط ہو گی تو تنگ آمد ہر تاجر و صنعت کار اور درآمد و برآمد کنندہ نجی روڈ ٹرانسپورٹ کی خدمات کو ہی ترجیح دے گا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بربادی میں جتنا ہاتھ خود محکمہ جاتی تساہلی کا ہے۔ اتنا ہی ہاتھ نجی ٹرانسپورٹ مافیا اور ریلوے کے عملے کے گٹھ جوڑ کا بھی ہے۔ اور یہ گٹھ جوڑ ایک کے نقصان پر دوسرے کے کاروباری فائدے کے اصول پر ہے۔
کارگو نہ ملنے کے سبب ریلوے کا انحصار مسافر ٹرینوں کے ٹکٹ سے ہونے والی آمدنی پر بڑھتا چلا گیا۔ اب تو ریلوے ٹکٹنگ خاصی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہے اور گھر بیٹھے بھی فون پر ایپ کے زریعے بکنگ کروائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس نظام کے آنے سے پہلے بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر ٹکٹ کی چور بازاری یا نشست اور برتھ حاصل کرنے کے لیے اضافی پیسے کی وبا عام تھی۔ یہ کام قلی سے شروع ہوتا تھا اور اوپر تک بندر بانٹ ہوتی تھی۔
ریلوے لوکوموٹیوز کے ڈیزل اور موبل آئل کی خریداری میں بھی گھپلے ہوتے تھے۔ ملاوٹ زدہ سستے ڈیزل اور تیل کے استعمال سے چند افراد کو تو فائدہ ہوتا تھا مگر لوکوموٹیوز وقت سے پہلے ہی ناکارہ یا بیمار ہو جاتے تھے۔
ہرنئے وزیر کو نئی ٹرین سروس شروع کرنے یا ٹرینوں میں اضافہ کرنے کا بھی شوق ہوتا ہے۔ بھلے اس نئی سروس کے لیے مطلوبہ تعداد میں مسافر بوگیاں یا لوکوموٹیوز میسر ہوں نہ ہوں۔ چنانچہ سیفٹی و سیکیورٹی کے بنیادی اصولوں کو نظرانذاز کرتے ہوئے کھڑے انجنوں کے پرزے نکال کے کچھ انجنوں کو چلت پھرت کے قابل بنایا جاتا رہا اور پرانی بوگیوں کورنگ و روغن کرکے باعجلت لشکایا بھی جاتا رہا تاکہ وزیرِ باتدبیر نئی ٹرین سروس کا فیتہ کاٹ کر تصویر بنوا سکیں۔
دو ہزار دس گیارہ میں ریلوے میں تین ارب روپے کا ایک اسکریپ اسکینڈل پکڑا گیا جس میں اس وقت کے وزیرِ ریلوے، سیکریٹری ریلوے، جنرل منیجر ریلوے اور چیف کنٹرولر اسٹورز اور دیگر اہلکاروں کا نام سامنے آیا۔ اس کیس کی تفتیش ایف آئی اے اور نیب کے سپرد ہوئی۔
ہوا یوں کہ انتالیس ہزار میٹرک ٹن مشینری اسکریپ کے نام پر من پسند نجی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دی گئی۔ اس وقت اسکریپ کا مارکیٹ ریٹ سینتیس ہزار روپے میٹرک ٹن تھا لیکن چار ٹھیکیداروں کو اٹھائیس ہزار روپے فی میٹرک ٹن کے حساب سے ٹھیکہ دے دیا گیا۔ یوں قومی خزانے کو تین سو ملین روپے کا نقصان پہنچا۔ چیف کنٹرولر اسٹورز نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ اس میں سے آدھی رقم وزیر اور سیکریٹری نے بانٹ لی۔
سیکریٹری صاحب بیرونِ ملک نکل لیے۔ وزیر صاحب سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔ چار ٹھیکیداروں نے پلی بارگین کر لی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اس کیس کا موجودہ اسٹیٹس کیا ہے۔ یہ نیب جانتا ہے یا پھر ایف آئی اے۔
فروری دو ہزار بارہ میں لاڑکانہ جیکب آباد سیکشن پر لگ بھگ پچیس کلو میٹر کا ٹریک چرا لیا گیا۔ اس اسکینڈل میں ریلوے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ڈی پی او اور ڈی ایس پی جیکب آباد کے نام بھی سامنے آئے۔ مسروقہ ریلوے ٹریک کی ایک سو تریپن پلیٹیں لاہور میں مصری شاہ کی اکبر مارکیٹ کے گودام سے برآمد ہوئیں۔ یہ کیس بھی نیب کے حوالے کیا گیا۔
چوری چکاری کے باوجود بھی ریلوے اپنے اثاثوں کے اعتبار سے آج بھی ایک امیر ادارہ ہے۔ اگر دیمک کا کچھ علاج ہو جائے تو محکمے میں اب بھی بہت جان باقی ہے۔
تقسیم کے بعد پاکستان کو لاہور کی مغل پورہ ریلوے ورکشاپ ترکے میں ملی۔ انیس سو آٹھ میں قائم ہونے والی یہ ورکشاپ شمالی ہندوستان میں نارتھ ویسٹرن انڈین ریلوے کی واحد جدید ورکشاپ تھی۔ انیس سو چھہتر سے یہاں پرانے لوکوموٹیوز کی بحالی کا کام شروع ہوا تاکہ ان کی عمر میں پندرہ تا بیس برس اضافہ ہو سکے۔
انیس سو ستر میں جرمن کمپنی السٹوم کی مدد سے اسلام آباد ریلوے کیرج فیکٹری تیار ہوئی۔ اس میں سالانہ ایک سو بیس کوچز کی تیاری کی گنجائش ہے۔ دو ہزار پندرہ تک یہاں دو ہزار گیارہ ریلوے کوچز بنائی گئیں۔ اس کے علاوہ دو ہزار سے زائد پرانی کوچز کو بحال اور رپیئر کیا گیا۔ بنگلہ دیش اور کچھ افریقی ممالک کے لیے بھی آرڈر پر کوچز تیار کی گئیں۔
انیس سو ترانوے سے رسالپور میں نئے لوکوموٹیوز کی اسمبلنگ کا کام بھی ہو رہا ہے۔ دو ہزار بیس تک اس فیکٹری میں ایک سو دو لوکوموٹیوز اسمبل ہوئے، دو سو بیالیس کی رپیئرنگ ہوئی اور چھبیس کو ازسرِ نو بحال کیا گیا۔ اس فیکٹری میں سنگل شفٹ میں سالانہ پچیس لوکوموٹیوز اور ڈبل شفٹ میں پچاس بھی تیار ہو سکتے ہیں۔
ریلوے ٹریک کے سلیپرز تیار کرنے کے لیے انیس سو ساٹھ میں سکھر میں پہلی فیکٹری تعمیر ہوئی۔ اس وقت پاکستان ریلوے کی پانچ سلیپر ساز فیکٹریاں فعال ہیں۔
ریلوے کیرج، لوکوموٹیوز اور سلیپر بنانے والی یہ آٹھوں فیکٹریاں سالانہ کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ بچا رہی ہیں۔ ان کی مصنوعات کا معیار بھی امریکن، جرمن اور چینی ٹیکنالوجی کے سبب بین الاقوامی سطح کا ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی سیکڑوں مسافر بوگیاں اور گزشتہ چھ برس میں ایک سو تینتیس نئے لوکوموٹویز بیرونِ ملک سے کیوں خریدے گئے؟
کہا جا رہا ہے کہ سی پیک کے تحت چھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر مالیت کا کراچی تا پشاور اٹھارہ سو ستر کلومیٹر کا ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہونے کے بعد ریلوے کی قسمت جاگ جائے گی۔ اس وقت صرف کراچی سے لودھراں کے درمیان آٹھ سو تینتالیس کلومیٹر ٹریک ہی ڈبل ہے۔
ایم ایل ون کے تحت پورا مین لائن ٹریک ڈبل ہو جائے گا۔ مسافر ٹرینوں کی رفتار ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ اور مال بردار ٹرینوں کی رفتار ایک سو بیس کلومیٹر تک بڑھ جائے گی کیونکہ سگنلنگ کا پورا نظام خودکار اور کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔
ایم ایل ون پر اس سال جنوری سے کام شروع ہونا تھا اور سات برس میں مکمل ہونا تھا۔ تاحال کام شروع نہیں ہوپایا۔ مگر جنھیں ریلوے چلانا ہے کیا ان کا ذہن بھی ایم ایل ون منصوبہ بدل پائے گا؟ (فی الحال یہ قصہ یہیں روکتے ہیں)۔