ہم تو خیر اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی نیتن یاہو حکومت کو تاریخ کی سب سے انتہاپسند فلسطین دشمن سرکار سمجھتے ہیں۔ مگر خود اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ مقبوضہ مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں کو انتہاپسند کہہ رہی ہے۔ اندازہ لگا لیں کہ جس گروہ کو ایک انتہا پسند حکومت انتہا پسند قرار دے رہی ہے وہ گروہ دراصل کس لیول کا متشدد ہوگا۔
اس کا اندازہ گزشتہ ہفتے ہوا جب داخلی سلامتی کے ذمے دار اسرائیلی ادارے شن بیت کے سربراہ رونن بار نے وزیرِ اعظم نیتن یاہو، اٹارنی جنرل اور کابینہ وزیروں کو ایک خط بھیجا جس میں بنا لگی لپٹی خبردار کیا گیا کہ مغربی کنارے پر آباد یہودی آبادکار اس قدر بے لگام ہو چکے ہیں کہ ان کی حرکتوں نے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔
اسرائیل کے چینل بارہ نے اس افشا ہونے والے خط کے جو مندرجات جاری کیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہاپسند حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین حالات سے نمٹنے کے بارے میں حکمت عملی پر اختلافات کی خلیج کس قدر گہری ہو رہی ہے۔
شن بیت کے سربراہ رونن بار نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر " ہل ٹاپ یوتھ " کے نام سے یہودی آبادکاروں کے مسلح دہشت گرد گروہ کو اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور وزیرِ خزانہ بازلیل سموترخ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ (دونوں وزرا بذاتِ خود غربِ اردن کے غیرقانونی آبادکار ہیں)۔ انھوں نے اپنے پرتشدد حامیوں کو نہ صرف خودکار اسلحے کے بے تحاشا لائسنس جاری کیے ہیں بلکہ اسرائیلی پولیس کو ان کے " کام " میں مداخلت سے بھی منع کر رکھا ہے۔
ہل ٹاپ یوتھ نامی یہ فاشسٹ گروہ جو سیکڑوں مسلح آباد کار جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینی املاک نذرِ آتش کرتا ہے، زمینوں پر قبضہ کرتا ہے اور مزاحمت کرنے والوں کو ہلاک اور زخمی کرتا ہے۔ حتمی مقصد غربِ اردن کو عربوں سے پاک کرنا ہے۔
شن بیت کے سربراہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ان متشدد آبادکاروں کو جرائم پیشہ کہہ کے درگزر نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ دہشت گرد ہیں۔ ان کا مقصد اپنی کارروائیوں سے وسیع پیمانے پر خوف پھیلانا ہے۔ خط کے مطابق پولیس کی جانب سے نگاہیں چرانے اور کچھ مرکزی رہنماؤں کی پشت پناہی کے سبب صورتِ حال قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ ان آبادکاروں کے تشدد کی ابتدا سگریٹ لائٹرز سے ہوئی تھی اور اب ان کے ہاتھ میں جنگی ہتھیار ہیں۔ ان میں سے متعدد ہتھیار ریاستی عمل داروں نے فراہم کیے ہیں۔ یہ دہشت گردانہ مہم نہ صرف یہودی تعلیمات بلکہ ہم سب پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔
شن بیت کے سربراہ نے خبردار کیا کہ یہ دھشت گرد پہلے پہل سیکیورٹی فورسز سے آنکھ بچا کے کارروائیاں کر رہے تھے اور اب ان کی جرات اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی راہ روکنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں سے بھی نہیں چوک رہے۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہلکار اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور حصے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ ریاستی رٹ کی کمزوری کی صورت میں نکل رہا ہے۔
اس خط میں اٹھارہ جولائی کو قومی سلامتی کے وزیر بن گویر کے مسجد اقصی کے دورے کا بھی تذکرہ ہے۔
(ایک بین الاقوامی سمجھوتے کے تحت اردن اقصی کمپلیکس کا کسٹوڈین ہے۔ اس احاطے میں یہودی داخل تو ہو سکتے۔ البتہ یہاں عبادت کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے۔ مگر بن گویر نے اپنے دورے میں کھلم کھلا میڈیا کیمروں کے سامنے اس احاطے میں اپنے ہمراہ آنے والے مسلح افراد کے ساتھ عباداتی مناجات پڑھیں اور واضح طور پر اعلان کیا کہ ہم اقصی کے احاطے میں حقِ عبادت محدود کرنے کے کسی سمجھوتے کو نہیں مانتے)۔
شن بیت کے سربراہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ایک اعلیٰ ذمے دار ریاستی عہدیدار (بین گویر) کے غیر ذمے دارانہ طرزِ عمل کے نتیجے میں اتنی خونریزی بھڑک سکتی ہے کہ شاید ہمیں اپنا چہرہ پہچاننا مشکل ہو جائے۔
شن بیت سربراہ نے مزید لکھا ہے کہ وہ بطور یہودی، بطور اسرائیلی اور بطور سرکاری عہدیدار نہائیت تکلیف اور دکھ کے ساتھ متعدد بار سوچنے کے بعد یہ خط لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں تاکہ کل کلاں حالات قابو سے باہر ہوں تو کوئی یہ الزام نہ دھر سکے کہ سیکیورٹی اداروں نے بروقت خبردار نہیں کیا تھا۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کے سبب نہ صرف یہودی آبادکاروں کا مستقبل داؤ پر ہے بلکہ ہمارے قریبی بیرونی دوست ممالک بھی ہم پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فوج کو بھی وہ اضافی ذمے داریاں نبھانا پڑ رہی ہیں جن کی انھیں تربیت نہیں دی گئی اور نہ ہی یہ ان کا بنیادی کام ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ریاستی قیادت ملکی سلامتی اور اس کے وجود کو ایک مخصوص نظریے کی بھینٹ نہ چڑھائے۔
اسرائیلی چینل بارہ کی رپورٹ کے مطابق شن بیت کے سربراہ کا یہ خط جب کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی میں رکھا گیا تو قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے شن بیت کے سربراہ کی فوری برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہونے اگرچہ اس بارے میں کوئی فوری رائے نہیں دی مگر وہ بھی شن بیت کے سربراہ اور مرکزی انٹیلی جینس موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا سے خاصے ناخوش ہیں۔
نیتن یاہونے دونوں میں سے کسی کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ " میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کرنے والی ٹیم اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا تنِ تنہا سامنا کر رہا ہوں۔ وہ کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام شرائط ماننے پر آمادہ ہیں اور میرے پیشِ نظر اسرائیل کا مجموعی سیکیورٹی مفاد ہے۔ میں ایسی کسی شرط کے سامنے جھکنے پر تیار نہیں جو ریاست کی سلامتی کے مفاد سے متصادم ہو "۔
دوسری جانب کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی کے رکن اور وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے اپنے ٹویٹ میں شن بیت کے سربراہ کی تشویش کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ قومی سلامتی بن گویر کے غیر ذمے دارانہ رویے اور اقدامات نفاق پیدا کر رہے ہیں اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جب کہ شن بیت اور سلامتی کے ذمے دار دیگر ادارے ان خطرات کی مسلسل نشاندہی کر رہے ہیں۔
بن گویر نے وزیرِ دفاع کے ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کیا کہ یوو گیلانٹ مجھ پر حملہ آور ہونے کے بجائے اگر حزبِ اللہ پر حملہ کریں تو یہ قومی سلامتی کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔
شن بیت کے سربراہ کا یہ خط خاصا جرات مندانہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسرائیل کوئی نارمل معتدل ریاست ہے۔ یہ دراصل بدمعاشوں کے درمیان حکمتِ عملی کے اختلافات ہیں۔ سب نسل کشی کے حق میں ہیں۔ البتہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے لامتناہی جنونی ایجنڈے کے برعکس دس ماہ سے جاری طویل جنگ سے کچھ وقفہ چاہتی ہے۔ آخر گردنیں کاٹتے کاٹتے قصائی کا ہاتھ بھی تو تھک جاتا ہے۔