بحرِ ہند دنیا کی معاشی شاہ رگ ہے اور ستر فیصد عالمی تجارت یہاں کے ساحلی و آبی وسائل کی ہوتی ہے یا پھر یہاں سے گذرتی ہے۔ ہر ابھرتی عالمی قوت کا خواب ہے کہ بحرِ ہند تک اس کی رسائی اور مفادات کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دوسری عالمی جنگ تک بحرِ ہند کی غالب طاقت برطانیہ تھا۔ سرد جنگ کے دور میں امریکا اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے اسٹرٹیجک گھیراؤ اور نیچا دکھانے کے لیے ساحلی قوتوں کو پٹانا شروع کیا۔ سوویت یونین نے اس خطے میں بھارت کو جونئیرپارٹنر بنایا اور ویتنام سے قرنِ افریقہ میں صومالیہ کے ساحل تک کئی بحری اور فضائی اڈے بنائے یا پھر کوشش کی۔
امریکا نے پاکستان سے ایران اور خلیجی ریاستوں تک کے پورے علاقے کو نہ صرف ایک اجتماعی عسکری اڈے میں بدل دیا بلکہ جنوب مغربی بحرِ ہند میں ماریشس کے جزیرے ڈیگوگارسیا کو برطانیہ سے پٹے پر لے کر پہلے سے موجود بحری و فضائی سہولتوں کو اتنی توسیع دی جس کے بعد آدھے بحرِ ہند اور مشرقی افریقہ کے پورے ساحل پر جاری سوویت سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکتی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت بدلتا ہے اتحادی بھی بدلتے رہتے ہیں۔
آج بحرِ ہند میں سوویت یونین کی جگہ چین نے لے لی ہے۔ بھارت اب سوویت یونین کے بجائے نئی گیم میں امریکا کا جونئیر پارٹنر اور بزعمِ خود علاقائی قوت ہے۔ جس طرح اگلے زمانوں میں سوویت یونین کے گھیراؤ کے لیے ازقسم ِ سینٹو اور سینٹو اتحاد تشکیل دیے رہے اور ایسے اتحادوں کے توڑ کے لیے سوویت یونین ایشیائی سلامتی کے اتحاد کے نام پر آس پاس کی تمام ملحقہ ریاستوں کو ایک تعاونی لڑی میں پرونے کے لیے کوشاں رہا۔
اسی طرح چین کے روڈ اینڈ بیلٹ کے دھاگے میں ایشیا اور افریقہ کو اقتصادی ثمرات کی گاجر دکھا کر باندھنے کی کوشش اور بحیرہِ جنوبی چین پر بیجنگ کے دعویِ ملکیت کے علاوہ برما، سری لنکا، پاکستان سے قرنِ افریقہ تک بحری سہولتوں کی تلاش و سرمایہ کاری جیسی سرگرمیوں کو مغرب دوسری سردِ جنگ کے طور پر لے رہا ہے۔
چین کو روکنے کے لیے نہ صرف جی سیون ممالک کی جانب سے روڈ اینڈ بیلٹ کا متبادل منصوبہ پیش کرنے کی کوشش ہے بلکہ بحرِ ہند سے بحیرہ جنوبی چین اور مشرقِ بعید تک کے پورے خطے میں ممکنہ چینی سٹرٹیجک اثر کے توڑ کی خاطر ایک چار رکنی عسکری اتحادی ڈھانچہ کوارڈز کی شکل میں کھڑا کیا گیا ہے۔ اس کے چار ستون امریکا جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا ہیں۔ جب کہ ویتنام، فلپینز اور انڈونیشیا کو جونئیر پارٹنر شپ دی گئی ہے۔ اس اتحاد کی دو ماہ طویل پہلی جنگی مشق بحیرہِ جنوبی چین میں شروع ہو چکی ہے۔
بھارت اور چین کے مابین گزشتہ برس ہمالیہ سلسلے میں پہلی مار پیٹ کا احوال ہم سب کو معلوم ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چین نے اپنی بحری قوت کو نیلے پانیوں کی طاقت میں بدلنے کے لیے پچھلی ایک دہائی میں تین طیارہ بردار بحری جہاز بھی سمندر میں اتار دیے۔
بھارت نے عسکری اعتبار سے نہ سہی زہنی اعتبار سے خود کو چین کا ہم پلہ سمجھتے ہوئے دو ہزار چار میں روسی طیارہ بردار جہاز ایڈمرل گورشکوف کو ری کنڈیشنڈ کر کے وکرم ادتیہ کے نام سے اپنی بحریہ میں شامل کر لیا۔ دوسرا طیارہ بردار جہاز وکرانت کے نام سے مقامی طور پر ہی تیار کیا گیا ہے اور ان دنوں کیرالہ کے ساحل پر اس کی آزمائشی تیراکی ہو رہی ہے۔ جب کہ تیسرا طیارہ بردار جہاز بھارت کی مشرقی بحری کمان کے مرکز وشاکاپٹنم کے نیول شپ یارڈ میں تیار ہو رہا ہے۔
چونکہ چین نے افریقی ساحل پر جیوتی میں اپنا پہلا نیول بیس دو ہزار سترہ میں تعمیر کر لیا۔ اس کے بعد بھارت کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ اس نے ماریشس کی حکومت سے دو ہزار پندرہ میں ایک سمجھوتہ کیا جس کے تحت بارہ میل طویل جزیرے آگالیکا کی ساڑھے تین سو نفوس پر مشتمل آبادی کی زندگی بہتر بنانے کے لیے جزیرے میں دو ہزار انیس سے زبردست تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔
حال ہی میں الجزیرہ کی انویسٹی گیشن ٹیم کی شائع رپورٹ کے مطابق بھارت بیرونِ ملک اپنا پہلا بحری و فضائی اڈہ آگالیکا میں تعمیر کر رہا ہے۔ لگ بھگ ایک ہزار بھارتی ماہرین و کارکن دن رات جٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ممبئی اور وشاکا پٹنم سے تعمیراتی سامان سے بھرے بارہ مال بردار جہازوں کی آگالیکا میں نقل و حرکت ریکارڈ کی گئی ہے۔
یہ منصوبہ ممبئی کی ایک تعمیراتی کمپنی ایفکونز کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ دو برتھوں پر مشتمل ایک بندرگاہ بنائی جا رہی ہے جہاں بھارتی بحریہ کو ایندھن اور قیام کی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ ساڑھے تین کلومیٹر طویل ایک رن وے تیار کیا گیا ہے جس پر کوئی بھی مال بردار طیارہ اتر سکتا ہے۔ فی الحال یہاں فضائی نگرانی کے لیے پی ایٹی ون طیارے رکھے جائیں گے۔
اگالیکا کے ساڑھے تین سو مقامی باشندے پریشان ہیں کہ ان کے نام پر وہ ترقیاتی کام ہو رہا ہے جس کی انھوں نے کبھی تمنا نہیں کی۔ انھیں ڈیگوگارسیا کا حشر یاد ہے جہاں کی پانچ ہزار آبادی کو انیس سو تہتر میں مستقلاً وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔
اگرچہ ماریشس کے وزیرِ اعظم پراونا جگن ناتھ ڈھائی ماہ قبل ایک بار پھر پارلیمنٹ میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت کو کسی بھی طرح کی فوجی سہولتیں فراہم کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ مگر وہ یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ جب ماریشس کی اپنی کوئی فضائیہ ہی نہیں اور اس کے کوسٹ گارڈز کے پاس صرف چار نگراں چھوٹے طیارے ہیں جن کے لیے آگالیکا میں پہلے ہی سے آٹھ سو میٹر کی فضائی پٹی موجود ہے تو پھر ساڑھے تین کلومیٹر طویل نیا رن وے اور گہرے پانی کے بحری جہازوں کے لیے دو جدید گودیوں کی تعمیر کی فوری ضرورت کیوں آن پڑی؟
مگر بھارتی وزارتِ دفاع اس اڈے کی تعمیر کا سارا خرچہ برداشت کرنے کے باوجود اس کا اعتراف کرنے سے کیوں شرما رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اب تک کا ریاستی بیانیہ یہی ہے کہ بھارت بحرِ ہند کو فوجی رسہ کشی کا مرکز بنانے کے اصولی طور پر خلاف ہے اور اس بابت چین جو کوششیں کر رہا ہے اس پر مسلسل تنقید کررہا ہے۔ اب اگر وہ بھی آگا لیکا میں فوجی سہولتوں کی تعمیر کا اعتراف کر لے تو پھر ریاستی بیانئے کا کیا ہوگا۔ چنانچہ فی الحال صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی پالسی ہی مناسب ہے۔ ہائے رے ریاکاری۔