نومبر انیس سو سینتیس میں امریکی ریاست مسوری کے روزنامہ سینٹ لوئی اسٹار ٹائمز میں یہ مقولہ شایع ہوا "سفارت کار اسے کہتے ہیں جو آپ کو ایسے دلنشیں انداز میں کہے کہ جہنم میں جاؤ اور آپ خوشی خوشی جانے کو تیار بھی ہو جائیں۔"
تب سے اب تک سر ونسٹن چرچل سمیت درجنوں زعما اور لکھاری اپنی تحریروں اور خطابات میں یہ مقولہ طرح طرح سے استعمال کر چکے ہیں۔ مگر اب وہ نسل ختم ہو گئی جو اس مقولے کی روشنی میں سفارت کاری کے نازک مسائل سے نبرد آزما ہوتی تھی اور میڈیا کی چکا چوند سے الگ تھلگ بند کمروں میں پیچیدہ ترین مسائل بھی خوش اسلوبی سے حل ہو جاتے تھے۔
آج علاقائی سفارت کاری ہو کہ بین الاقوامی۔ کلاسیکل ڈپلومیسی اور ڈپلومیٹس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب ڈپلومیسی کھلے جلسوں، ٹویٹر اور ٹی وی اسکرین پر چلنے والی پٹیوں میں ہوتی ہے۔ سوچی سمجھی نپی تلی نہیں بلکہ بے ساختہ و عامیانہ ہے۔ وہ زمانے گئے جب بالمشافہ بات چیت، اعلامیوں اور سفارتی بیانات میں دھمکی اور گالی بھی اس ادا سے دی جاتی تھی کہ کوئی گرفت بھی نہ کر سکے اور بات جہاں پہنچنی ہو پہنچ جائے۔
آج کی سفارت کاری میں ابے تبے سے بھی بات کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ گھس کے ماریں گے، خاک چٹوا دیں گے، میلی آنکھ پھوڑ دیں گے، ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ابے تمہارا ملک ملک نہیں قحبہ خانہ ہے، ابے غیر ملکی امداد کے ٹکڑوں پر پلنے والو پہلے اپنا گھر سنبھالو، تمہارے بم کے بٹن سے میرا بٹن زیادہ بڑا ہے، ہم تم جیسے فلاں فلاں ملک کے گندے کیڑوں، ریپسٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں نہیں کھولیں گے۔
شکر ہے ظفراللہ خان، کے ایم پانیکر، میکنامارا، اولاف پامے، چو این لائی، لی ڈک تھو، جمشید مارکر، صاحبزادہ یعقوب خان، سلطان علی خیشتمند، اوتھانٹ، گرومیکو جیسے لوگ زندہ نہیں۔ ورنہ آج کی سفارت کاری دیکھ کر زندہ درگور ہو جاتے۔
وہ دور لد گئے جب ایک ہی وزیرِ خارجہ اور دفترِ خارجہ کا ایک ہی ترجمان ہوتا تھا۔ چین، روس اور مغربی دنیا میں اب بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔ مگر بھارت، پاکستان، افغانستان جیسے ممالک میں بی جے پی، پی ٹی آئی اور کابل انتظامیہ کا ہر وزیرِ مملکت، حتیٰ کہ صوبائی مشیر بھی خارجہ امور کا ماہر ہے۔ ہمارے ہاں دفترِ خارجہ کا دودھ زاہد حفیظ چوہدری کے ڈائس سے براستہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے دفتر سے مڑتا ہوا شیخ رشید کے کوچے سے نکل کر فیاض الحسن چوہان کے منہ تک پھیلا ہوا ہے۔
کابل میں اشرف غنی، امراللہ صالح اور مشیرِ قومی سلامتی حمد اللہ محب میں سے کس کے بیان کو ریاستی پالیسی سمجھا جائے۔ یہ تو کوئی افغان بھی نہیں بتا سکتا۔ اسی طرح بھارت میں اگر سبرامنیم جے شنکر وزیرِ خارجہ اور رویش کمار ترجمان ہیں تو پھر امیت شا، راج ناتھ سنگھ، پیوش گوئل اور یوگی ادتیاناتھ کیا ہیں؟
ان سے تو بہت بہتر طالبان ہیں۔ جن کے دو ہی ترجمان ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین۔
تو کیا ہم جیسے ممالک کا خارجی رائتہ امریکا سے بھی زیادہ بکھرا ہوا ہے جہاں مجموعی خارجہ پالیسی پر کوئی بھی بیان دینے کے مجاز صرف تین لوگ ہیں۔ سیکریٹری خارجہ انٹنی بلنکن، دفترِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس یا وائٹ ہاؤس کے میڈیا سے گفتگو کے مجاز اہل کار جان ساکی۔
امریکی دفترِ خارجہ میں ویسے تو دنیا کے ہر ریجن کی ڈیسک کے لیے ایک نائب سیکریٹری اور ایک انڈر سیکریٹری مقرر ہے۔ مگر شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق نائب سیکریٹری خارجہ نے یورپ سے متعلق کسی معاملے پر بقراطی بگھاری ہو۔
تو کیا ہمارے علاقائی و عالمی مفادات روس سے بھی زیادہ گنجلک ہیں جہاں صدر پوتن کے علاوہ صرف دو لوگ ہی خارجہ امور پر منہ کھولتے ہیں۔ وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اور دفترِ خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا۔ اور ان تینوں میں سے بھی کوئی روزانہ وعظ نہیں فرماتا بلکہ اکثر موضوعات پر کبھی کوئی بیان ہی نہیں آتا تاوقتیکہ ان کا تعلق براہ راست روسی خارجہ مفادات سے نہ جڑا ہوا ہو۔
تو کیا ہماری خارجہ ذمے داریوں کا گارا چین سے بھی زیادہ ادھر ادھر پھیلا ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چین کا ایک ہی صدر ہے ڑی زن پنگ۔ کیا جنابِ صدر روزانہ کسی نہ کسی مدعے پر ایک عدد بیان داغنا ہاضمے کے لیے مقوی سمجھتے ہیں؟ چین میں بہت سے نائب صدور بھی ہیں۔ وزیرِ داخلہ بھی ہوں گے۔ کیا ان کا دل نہ چاہتا ہوگا کہ بھلے ان سے متعلق معاملہ ہو نہ ہو ایران توران کی پھر بھی ہانکیں۔
سب دنیا جانتی ہے کہ چینی دفترِ خارجہ کا صرف ایک ہی ترجمان ہے۔ ڑاؤ لی جیان جو کہتے ہیں ان کا ایک ایک لفظ روزمرہ چینی خارجہ پالیسی کا سکہ بند آئینہ دار سمجھا جاتا ہے۔ یا پھر کوئی بہت ہی اہم بیان دینا ہو تو یہ کام وزیرِ خارجہ وینگ ای کا ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ اوپر سے نیچے تک خاکی سے سفید تک ہر کوئی اپنے بنیادی کام پر دیدہ ٹکانے کے بجائے بچپن سے ہی وزیرِ خارجہ بننا چاہتا تھا چنانچہ وزیرِ ریلوے کو روزمرہ حادثات کے تدارک کے طریقے تلاش کرنے سے زیادہ دلچسپی اس بات سے ہوتی ہے کہ تاجکستان ان دنوں افغانستان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔
رہی بات وزیرِ خارجہ کی تو اگر ان کے غیرملکی چکروں کا حساب کیا جائے تو پچھلے تین برس میں اتنے دورے تو کل ملا کے چین، روس اور امریکا کے وزرائے خارجہ نے بھی نہ کیے ہوں گے۔ ان دوروں سے البم بھرنے کے سوا ٹھوس نتائج کس قدر برآمد ہوئے؟ حضورِ والا نے اس عرصے میں بیرونی دارالحکومتوں میں جتنی گفتگو کی اس کا وزن لگ بھگ ہزار ٹن تو ہوگا۔ لیکن اس گفتگو کے سبب کیا پاکستان کی بات عالمی راہداریوں میں پہلے سے زیادہ دھیان سے سنی جاتی ہے؟
کوہستان کے علاقے میں نو چینی انجینئروں سمیت تیرہ افراد کی ہلاکت خارجہ امور کے نپٹارے کی تازہ مثال ہے۔ مقامی انتظامیہ، وزیرِ خارجہ، دفترِ خارجہ کے ترجمان اس واقعہ کو کئی دن تک تکنیکی خرابی کے نتیجے میں ہونے والا ایک حادثہ قرار دیتے رہے۔ جب کہ چینی سفارتخانہ، مشیرِ قانون، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اطلاعات روزِ اول سے اسے ایک تخریبی کارروائی گردانتے رہے۔ اس کنفیوژن کے نتیجے میں چین کو اپنی تحقیقاتی ٹیم بھیجنا پڑی۔ تب جا کے سب لوگ ایک پیج پر آئے اور اسے متفقہ طور پر تخریبی کارروائی قرار دیا گیا۔ کسی نے سوچا کہ چینی ہمارے بارے میں اب کیا سوچ رہے ہوں گے؟
اور یہ بات کون سمجھائے کہ جنابِ وزیرِ اعظم جب آپ نے ایک عدد وزیرِ خارجہ بھی مقرر کر رکھا ہے اور ماہر سفارت کاروں کا ایک پورا دستہ بھی مستعد ہے تو پھر آپ کو مغرب سے لے کر ازبکستان تک سب سے زیادہ جانکاری کا دعویٰ کر کے لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلانے میں کیا مزہ آتا ہے۔ اگر آپ سب جانتے ہیں تو پھر مشاورت کے نام پر اتنا لاؤ لشکر پالنے کی کیا ضرورت ہے۔
اندرونِ ملک امور سے متعلق کوئی بھی وزیر ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی کہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر خارجہ امور کو تو بخش دیجیے۔ چین سے ہم بہت کچھ سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن کب خاموش رہا جاتا ہے، کب کتنا بولا جاتا ہے اور کب صرف سر کی جنبش ہی کافی ہوتی ہے۔ کم از کم یہی گر چیینوں سے سیکھ لیں۔ اس کے بعد غربت کم کرنے کا فارمولا بھی سیکھتے رہیے گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے "خاموشی جہل کا پردہ اور عالم کا زیور ہے"۔