انیس سو ساٹھ کی دہائی تک الیکشن کمیشن کم و بیش ایک روایتی سا بیورو کریٹک ادارہ تھا۔ پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے چیف الیکشن کمشنر نوکر شاہ تھے۔
جسٹس عبدالستار پہلے جج تھے جو اپریل انیس سو انہتر میں چیف الیکشن کمشنر بنے۔ انھوں نے انیس سو ستر کے انتخابات خوش اسلوبی سے کروائے اور سولہ جنوری انیس سو اکہتر کو سبکدوش ہو گئے۔ مگر انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق کمیشن کی سربراہی کے لیے سپریم کورٹ کا جج ہونا لازمی قرار پایا۔ کیونکہ اس منصب کی شرائطِ ملازمت و اختیار و تنزلی وہی طے کیے گئے جو عدالتِ عظمی کے کسی بھی جج کے لیے مخصوص ہیں۔
(کئی برس بعد ایک ترمیم کے ذریعے کسی بھی سینئر بیورو کریٹ کو کمیشن کا سربراہ بنانے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس اعتبار سے سکندر سلطان راجہ گزشتہ باون برس میں چیف الیکشن کمشنر ہیں جن کا تعلق عدلیہ کے بجائے نوکر شاہی سے ہے)۔
چودہ اگست انیس سو تہتر کو نافذ ہونے والے آئین کے تحت جسٹس وحید الدین احمد (جسٹس وجیہہ الدین احمد کے والد)پہلے چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوئے مگر ڈھائی ماہ بعد ہی سبکدوش ہو گئے۔ ان کے بعد جسٹس سجاد احمد جان (وسیم سجاد کے والد) چیف الیکشن کمشنر بنے اور جولائی انیس سو ستتر تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھی کے دور میں مارچ انیس سو ستتر کے متنازعہ پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں بھٹو حکومت معزول ہوئی اور ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہوا۔
ضیا دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر تین بلدیاتی انتخابات (انیس سو اناسی، تراسی، ستاسی) اور فروری انیس سو پچاسی میں ملکی پارلیمانی تاریخ کے پہلے غیر جماعتی عام انتخابات منعقد ہوئے۔ البتہ دسمبر انیس سو چوراسی کا صدارتی ریفرنڈم گزشتہ تمام انتخابی مشقوں پر بازی لے گیا۔ ریفرنڈم کا سوال جلیبی کی طرح سیدھا، نہایت "طویل المختصر " اور اپنے تئیں زود ہضم تھا۔
" کیاآپ پاکستان کے قوانین قرآن و سنت کے تابع کرنے اور نظریہِ پاکستان کے تحفظ کے لیے صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کے اقدامات کی تائید کرتے ہیں اور کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ عمل جاری رہے اور اس کے بعد منتخبِ عوامی نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی ہو سکے؟ "۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اگلے پانچ برس کے لیے جنرل محمد ضیا الحق صدرِ پاکستان رہیں گے۔
اسے کہتے ہیں " دکھانا سجا تے مارنا کھبا "۔ یہ سوال اس مفروضے کے تحت ڈیزائن کیا گیا کہ اس ملک کے تیرہ کروڑ عوام نرے گدھے ہیں جنھیں سوال کے اندر پوشیدہ نیت سجھائی نہیں دے گی۔ گویا یہ سوال عوامی ذہانت کو براہِ راست چیلنج تھا۔ اس کے بارے میں حبیب جالب فرما چکے ہیں " شہر میں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا "۔ اس سناٹے میں بھی ضیا صاحب کے حق میں نوے فیصد سے زائد ووٹ پڑ گئے۔
یہ تمام "ادھ بدھ جمہوری مشقیں " الیکشن کمیشن کے ناک تلے ہی ہوئیں۔ مگر کسی نے الیکشن کمیشن کو برا بھلا تک نہیں کہا۔ جیدے موچی کو بھی معلوم تھا کہ انتخابی انتظام کا ریموٹ کنٹرول کہاں پر ہے۔ ان غیر جماعتی انتخابات میں وسیع دھاندلی کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جو بھی منتخب ہوتا وہ بالاخر اپنا ہی بندہ ہوتا یا پھر بندے دا پتر بن جاتا۔
عدلیہ بھی وہی باقی رہی جس نے عبوری آئینی حکم نامے مجریہ انیس سو اکیاسی کے تحت بارِ حلف اٹھا لیا تھا۔ اس تناظر میں جنوری انیس سو چھیاسی میں جونیجو حکومت نے جسٹس ایس اے نصرت کو تین رکنی الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد رفیق تارڑ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس علی مدد شاہ کمیشن کے رکن نامزد ہوئے۔ دسمبر انیس سو ستاسی میں مدد علی شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس عبدالرزاق تھہیم نے خالی جگہ پر کی۔
نومبر انیس سو اٹھاسی کا الیکشن ہو کہ اکتوبر انیس سو نوے کے انتخابات کہ اکتوبر انیس سو ترانوے کے انتخابات کہ فروری انیس سو ستانوے کے انتخابات۔ یہ چاروں الیکشن بھی کسی نہ کسی الیکشن کمیشن نے ہی کروائے۔ مگر انیس سو اٹھاسی میں جس طرح اسلامی جمہوری اتحاد بنا، انیس سو نوے میں جس طرح سیاستدانوں کو مہران گیٹ کے ذریعے پیسے بانٹے گئے اور سن ترانوے و ستانوے میں جس طرح سیاسی انجینئرنگ ہوئی۔ اس کے ہوتے دنیا کا بہترین اور فول پروف انتظامات کرنے والا الیکشن کمیشن بھی کسی کا بھی کیا بگاڑ لیتا؟
اور پھر اکتوبر دو ہزار دو کے عام انتخابات۔ ان کا پس منظر جاننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیسے وہ بساط بچھائی جاتی ہے جس پر الیکشن کمیشن محض ایک مہرہ بن کے رہ جائے۔
عبوری آئینی حکم نامے کے تحت جنوری دو ہزار میں حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی جگہ لینے والے سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کے تحت پہلا بنیادی کام یہ ہوا کہ بارہ رکنی بنچ نے جنرل پرویز مشرف کو تیرہ مئی دو ہزار کے دن تین برس کی مہلت دی کہ وہ آئین میں نظریہِ ضرورت کے تحت ضروری ترامیم کر سکتے ہیں۔ مگر انھیں اس مدت میں انتخابات بھی کرانے ہوں گے (بعد ازاں ستائیس اپریل دو ہزار دو کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی بنچ نے اپریل دو ہزار کے فیصلے کی دوبارہ توثیق کی)۔
جسٹس ارشاد حسن خان چھ جنوری دو ہزار دو کو چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ نو دن بعد (پندرہ جنوری) انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اس عہدے پر وہ دس جولائی دو ہزار چار تک متمکن ہوا۔ ان کے ہوتے اکتوبر دو ہزار دو میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے سیزیرین آپریشن کے ذریعے جنم لینے والی نویں نکور نومولود مسلم لیگ ق اکثریتی پارٹی بن کے ابھری مگر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور آزاد امیدواروں کی پیوند کاری سے ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہو پائی۔ پہلی بار مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس ِ عمل حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی قوت بن کے ابھرا یا ابھارا گیا۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ یہ تو الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھی کہ دو ہزار دو کے انتخابات شفاف و غیر جانبدارانہ ہوتے تو میں آپ کا منہ تکنے کے سوا اور کیا کیا کروں؟
جسٹس ارشاد حسن خان کے بعد جسٹس عبدالحمید ڈوگر قائمقام چیف الیکشن کمشنر بنے اور انھوں نے اپنے مختصر دور میں بس دو ہزار چھ کے بلدیاتی انتخابات ہی منعقد کروائے۔ ان کے بعد جسٹس قاضی محمد فاروق چیف الیکشن کمشنر بنے۔ انھی کے دور میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اٹھارہ فروری دو ہزار آٹھ کو عام انتخابات ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت قائم ہوئی، پرویز مشرف کی رخصتی ہوئی اور آصف زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا۔
دو ہزار آٹھ کے انتخابی نتائج پر کم و بیش ہر فریق نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اس میں الیکشن کمیشن کی کاوشوں سے کہیں اہم یہ عنصر تھا کہ اس بار طاقت کے اصل مرکز نے کم ازکم انتخابی عمل کی حد تک غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ فیصلہ دو ہزار تیرہ کے آخر تک برقرار رہا۔
کسی بھی الیکشن کمیشن یا کمشنر پر اندھا دھند گولہ باری سے پہلے اس کمیشن کے اردگرد کے ماحول اور آزادیوں کا سیاق و سباق پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ کرے کوئی بھرے کوئی والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
گزشتہ اور زیرِ نظر مضمون کو اگر آپ جوڑ کے پڑھیں تو شاید ایک ہی نتیجہ برآمد ہو گا۔ سب چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نہ صرف مکمل خود مختار ہو بلکہ اس خود مختاری کا اطلاق بھی کرے۔ مگر مجھ پر نہیں دوسرے پر…