سات اکتوبر سے پہلے تک اسرائیلی فوج اس عسکری ڈاکٹرائن کے تحت مشقیں کرتی رہی کہ اس پر بیک وقت چہار جانب سے عرب ممالک کی افواج چڑھ دوڑی ہیں اور اب اپنی بقا کے لیے کیا فوجی حکمتِ عملی اپنانی ہے؟
انیس سو اڑتالیس انچاس میں ایسا ہی ہوا جب نوزائیدہ اسرائیلی ریاست نے عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی پیش قدمی کامیابی سے روک دی۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں بھی اسرائیل نے پہل کرکے صرف پانچ دن میں مصر، شام اور اردن کی اجتماعی عددی برتری چت کردی۔ اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو سرپرائز ملا جب مصر اور شام نے اچانک دو طرفہ حملہ کر دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اسرائیل سنبھل گیا اور اس نے بھرپور امریکی مدد سے عرب پیش قدمی کو بیچ میں ہی روک دیا۔
انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے بیروت سے پی ایل او کو لبنانی فلانجسٹوں کی مدد سے کامیابی سے کھدیڑ دیا اور لبنان کی جنوبی پٹی کو اگلے اٹھارہ برس تک بطور بفر زون استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل نے اس دوران اپنی طفیلی ساؤتھ لبنان آرمی بھی تشکیل دے دی۔ مگر مئی دو ہزار میں اسرائیل ایران و شام کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی تاب نہ لا سکا۔ اسے عجلت میں جنوبی لبنان کی پٹی چھوڑنا پڑی۔ ساؤتھ لبنان آرمی کا وجود بھی اسرائیلی پسپائی کے ساتھ تحلیل ہوگیا۔ اٹھارہ برس کے قبضے کی قیمت ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں کی موت کی صورت میں چکانی پڑی۔
جولائی دو ہزار چھ میں جب حزب اللہ نے ایک شبخون میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو اغوا کر لیے تو اسرائیل نے حزب اللہ کو مزہ چکھانے کے لیے جنوبی لبنان میں بھرپور فضائی و بری کارروائی شروع کی مگر الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جب حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل شمالی اسرائیل کے سرحدی قصبوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے۔ اسرائیل سوائے اس کے کچھ نہ کر سکا کہ حزب اللہ کو برابر کا فریق سمجھ کر جنگ بندی پر راضی ہو کر اس کمبل سے عارضی طور پر جان چھڑا لے۔
حزب اللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور طاقت پکڑتی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شمالی اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے راکٹوں کی زد میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ اسرائیلی شہری گھر بار چھوڑ کے نقل مکانی کر چکے ہیں اور غزہ میں الجھنے کے سبب اسرائیل حزب اللہ سے ایک اور بھرپور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی جوابی کارروائیاں محض فضائی حملوں اور حزب اللہ کمانڈروں کو انفرادی طور پر ہدف بنانے تک محدود ہیں۔
اسرائیل کے ملٹری ڈاکٹرائن میں فلسطینی کبھی بھی ایسی عسکری قوت کے طور پر نہیں دیکھے گئے جن سے اسرائیل کو بقائی خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ اسرائیلی نصاب میں فلسطینیوں کو ایک پسماندہ نیم انسان کی شکل میں ہی پیش کیا گیا جو محض دہشت گرد ہیں اور کوئی بھرپور جنگ لڑنے کے اہل نہیں۔
چنانچہ اسرائیلی فوج کو شہری علاقوں میں ایک بھرپور مزاحمتی شورش سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ اسے فلسطینیوں کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک پولیس فورس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کی باقاعدہ بری فوج محض سوا لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ باقی فوجی طاقت ہر بالغ اور اہل شہری کے لیے تین برس کی لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بس تین برس کی لازمی مدت پوری کرکے اپنے شعبوں اور اداروں میں لوٹ جاتے ہیں اور بہت کم مستقل فوجی ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
اس پس منظر کے ساتھ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتی تھی کہ حماس یا اسلامی جہاد جیسی تنظیمیں محض اکادکا گھریلو ساختہ راکٹ چلانے کے سوا اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا کبھی اتنی طاقتور ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے اندر گھس کے کوئی بھرپور پروفیشنل فوجی مشن انجام دے سکیں۔
اسرائیل کو ماضی میں الفتح، پاپولر فرنٹ یا دیگر مسلح فلسطینی تنظیموں کے اتحاد پی ایل او کا تجربہ تھا۔ اسے اچھے سے معلوم تھا کہ فلسطینی گوریلے یا فدائین زیادہ سے زیادہ سرحدی علاقہ عبور کرکے مختصر و محدود چھاپہ مار کارروائی کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کہیں کوئی بم دھماکا کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اسرائیلی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عارضی طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں۔
اسرائیل نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی چھٹ پٹ مسلح کارروائیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کر لیا۔ جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو سیاسی و سفارتی طور پر تسلیم کرکے اسرائیل اور امریکا کی من مانی شرائط پر ہتھیار رکھ کے جو بھی ملا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیا تو اسرائیلی عسکری قیادت کے دل سے یہ آخری کھٹکا بھی نکل گیا کہ فلسطینی اب کبھی اس قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک سنگین عسکری چیلنج بن سکیں۔
اسرائیل نے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تاثر کو اپنے مغربی اتحادیوں اور عرب دنیا کی نظروں میں اس قدر مستحکم کر دیا کہ خود فلسطینیوں کے سابق اتحادی ممالک بھی اس مسلسل پروپیگنڈے کے قائل ہوتے چلے گئے کہ فلسطینی کسی کے لیے بھی کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکتے۔ چنانچہ فلسطینیوں کو عرب حکومتوں نے پہلے کی طرح احترام اور برابری کا درجہ دینے کے بجائے ان پر ترس کھانا شروع کر دیا۔
جب عربوں نے دیکھا کہ خود پی ایل او کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی بھی عملاً اسرائیل کو ایک ناقابلِ شکست طاقت سمجھ کے انتظامی طور پر اس کی بی ٹیم بننے پر تیار ہے تو پھر عرب ممالک نے مسلسل گھاٹے کے فلسطینی نظریاتی سودے کو نظرانداز کرتے ہوئے براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اسرائیل سے اپنے سفارتی، اقتصادی و اسٹرٹیجک معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیے۔
پہل مصر نے کی، پھر اردن نے مصالحت کی اور اس کے بعد خلیجی ریاستوں نے امریکا سے قربت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل سے دو ریاستی حل کی شرط منوائے بغیر ہاتھ ملا لیا۔
مگر سات اکتوبر کو حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح کیڈر نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کئی گھنٹوں تک جو کارروائی کی۔ اس کے سبب اسرائیل کا روایتی فوجی نظریہ ملیامیٹ ہوگیا کہ فلسطینی نہ اپنا دفاع ٹھیک سے کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام۔ حماس کے آپریشن کے بعد اگلے بہتر گھنٹے تک پوری اسرائیلی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سکتے کی حالت میں رہی۔ وہ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے ساتھ دراصل کیا ہاتھ ہوگیا۔
غزہ میں قدم قدم پر جاسوسی کے جال اور غزہ کو تین طرف سے خاردار تاروں سے الگ تھلگ کرنے اور وہاں کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کا فوری پتہ چلانے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ جدید آلات سے لیس نگرانی کے ٹاورز کی موجودگی میں یہ کیسے ہوگیا؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اسرائیل کے ممکنہ ردِ عمل کا غلط اندازہ لگایا یا پھر حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کو غزہ میں پھنسانے کے لیے جو کانٹا ڈالا اسرائیل اسے حماس کی توقعات کے مطابق نگل گیا؟ اور دنیا اب اسرائیل کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اس کا اصل چہرہ دیکھ پا رہی ہے؟ ان سوالات کا جواب اگلے مضمون میں ڈھونڈنے کی کوشش ہوگی۔