جب نیتن یاہو کہتا ہے کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑے بغیر غزہ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت غزہ کے تئیس لاکھ فلسطینیوں میں جتنے بھی بوڑھے ہیں وہ سب کے سب سابق حماسی یا حماس کے ہمدرد ہیں۔ جتنے بھی ڈاکٹر، مریض، اساتذہ، ہنرمند اور کسان ہیں وہ حماس کے ڈھانچے کو برقرار رکھنے والی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ جتنی بھی عورتیں ہیں انھوں نے یا تو حماسیوں کو جنم دیا ہے یا پھر جنم دے رہی ہیں اور جتنے بچوں کو بھی جنم دیا جا رہا ہے وہ اگلے چودہ پندرہ برس میں اسرائیل کے لیے ایک بار پر بقائی خطرہ بن کے کھڑے ہو جائیں گے۔ چنانچہ یہ سب واجب القتل ہیں کیونکہ یہ سب حماس ہیں۔ یا تو یہ سب غزہ کی پٹی سے کوچ کر جائیں یا اس دنیا سے کوچ کر جائیں۔
اسی نیتن یاہو ڈاکٹرائین پر عمل کے لیے اسرائیلی فوجی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس ڈاکٹرائین کو نوے فیصد اسرائیلی شہریوں کی کھلی یا خاموش حمائیت بھی حاصل ہے۔ لہٰذا کوئی بھی امن سمجھوتہ جس میں اسرائیل کو ان تمام " حماسیوں" کے قتل سے روکنے کی شرط شامل ہو موجودہ اسرائیلی اسٹیبشلمنٹ کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
اس لیے اب تک جنگ بندی کے لیے اقوامِ متحدہ نے جتنی بھی قراردادیں منظور کی ہیں، عالمی عدالتِ انصاف نے جو بھی قانونی رائے دی ہے۔ بائیڈن فارمولے کے نام سے جو بھی تین مرحلوں پر مشتمل امن منصوبہ سامنے رکھا گیا ہے، اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتے داروں نے جنگ بندی کے حق میں جتنے بھی دھرنے دیے ہیں۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوجی ہائی کمان نے بھی حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کی خواہش کو ناقابلِ عمل قرار دیا ہے۔ اس سب کے باوجود نیتن یاہو کا حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کا تصور ٹس سے مس نہیں ہو سکا۔ اس فاشسٹ حکومت کے لیے غزہ میں آخری فلسطینی کے مٹنے تک کوئی امن منصوبہ قابلِ قبول نہیں۔
اسی برس پہلے ہٹلر نے بھی کم و بیش یہی عزم ظاہر کیا تھا کہ سب اس کے غلام بن جائیں یا پھر مر جائیں تب ہی جو امن قائم ہوگا وہ نازیوں کو قابلِ قبول ہوگا۔ مگر باقی دنیا نے ان شرائط کو تسلیم نہیں کیا اور ہٹلر کی لاش گرنے کے بعد ہی امن قائم ہو پایا۔ مگر وہ پرانا زمانہ تھا یہ نئی مہذب اور ترقی یافتہ صدی ہے۔ وہ نازی جرمنی تھا یہ آج کے ہٹلر کا اسرائیل ہے۔ مگر عالمی چوہدریوں اور ان کے طفیلیوں کے قول و فعل میں فرق صاف ظاہر ہے۔
حماس کی اسرائیلی تشریح کے برعکس دیگر محققین کے لیے حماس ایک مسلح سیاسی تنظیم ہے جس کی تربیت یافتہ افرادی قوت سات اکتوبر سے پہلے اسی ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان فرض کی جاتی رہی ہے۔ اس کا اسلحہ اسمگلڈ ہتھیاروں اور خانہ ساز ابتدائی نوعیت کی ہتھیاری صنعت سے حاصل ہوتا تھا۔ اس کی حکمتِ عملی میں غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے قطر، ایران، یمنی ہوثیوں اور لبنانی حزبِ اللہ کی حمائیت حاصل تھی۔ اب قطر نے خود کو ثالث کے درجے پر فائز کر لیا ہے۔
غزہ میں حزبِ اللہ نے دو ہزار چھ میں انتخابی کامیابی کے نتیجے میں حکومت بنائی۔ اس کے باوجود اسرائیل، امریکا اور بیشتر مغربی ممالک اسے دھشت گرد تنظیم سمجھ کے براہ راست معاملات طے کرنے سے گریزاں رہے۔ البتہ یہ علامتی طور پر فلسطینی اتھارٹی کا حصہ رہی اور اب فلسطینی اتھارٹی نے کئی برس بعد چینی ثالثی کے نتیجے میں حماس کو دوبارہ اپنا حصہ تسلیم کر لیا ہے۔
اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ اس نے گزشتہ دس ماہ میں حماس کے مسلح بازو القسام بریگیڈ کی پچھتر فیصد عسکری طاقت ختم کر دی ہے۔ آدھی سے زائد زیرِ زمین سرنگوں کا صفایا کر دیا ہے اور لگ بھگ پندرہ ہزار متحرک مسلح گوریلوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اتنے ہی چھاپہ مار زخمی ہوئے ہیں اور چار ہزار اسرائیلی قید میں ہیں۔
البتہ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کی خبر ہے کہ جیسے ہی اسرائیلی دستے کسی علاقے سے واپس ہوتے ہیں۔ حماس اٹھارہ برس سے اوپر کے نوجوانوں کی ریکروٹمنٹ شروع کر دیتی ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کا اب کچھ نہیں بچا۔ ان کی شکل میں اسرائیل نے دراصل ایک اور انتقامی نسل کی فصل کھڑی کر دی ہے۔ حماس کو جڑ سے اکھاڑ کے اسرائیل اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کا جو خواب دیکھ رہا تھا وہ سرحدیں کم ازکم ایک اور فلسطینی نسل کے غصے کے سبب اور غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔
آج دس ماہ بعد بھی جب غزہ ہر اعتبار سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اسرائیل پر اب بھی غزہ کی جانب سے اکادکا راکٹ گرتے رہتے ہیں۔ یہ راکٹ نہیں اسرائیل کے منہ پر طمانچہ ہیں جو چالیس ہزار سے زائد انسانوں کو قتل کرنے اور ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو زخمی کرنے اور بیس لاکھ لوگوں کو دربدر کرنے کے باوجود اسرائیل کے منہ پر پڑ رہے ہیں۔
حماس نے اپنی بٹالینیں توڑ دی ہیں اور اب اس کے جنگجو ایک دو پانچ اور دس کی ٹولیوں میں متحرک ہیں۔ انھیں پناہ گزینوں کے ہجوم میں تلاش کرنا بھوسے میں گم سوئی ڈھونڈنے کے برابر ہے۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ جہاں حماس کی موجودگی کا شبہہ ہو وہ پورا علاقہ ہی برباد کر دیا جائے۔ یہ حکمتِ عملی بھی کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔
پچھلے دس ماہ میں اسرائیل نے ہزاروں حماسیوں کو ہلاک کرنے کا دعوی تو کیا ہے مگر ایک بھی واقعہ ایسا سامنے نہیں آیا کہ حماس کے کسی مسلح یونٹ یا چھوٹی سے چھوٹی ٹولی نے اسرائیلی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کے خود کو ان کے حوالے کر دیا ہو۔ حماسی فائٹر اس مکھی کی طرح آپریٹ کر رہے ہیں جو آپ کے منہ کے اردگرد اڑ رہی ہے اور بیٹھ رہی ہے اور آپ اسے ہلاک کرنے کی کوشش میں اپنا ہی منہ پیٹ پیٹ کے لال کر لیں۔ ان دس ماہ میں ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اسرائیل اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہرگز ہرگز نہیں۔
حماس کو تباہ کرنے کے اسرائیلی دعوے اپنی جگہ مگر خود اسرائیل کے سرپرست بھی انھیں ماننے کو تیار نہیں۔ امریکی انٹیلی جینس ذرایع کہتے ہیں کہ اسرائیل اب تک حماس کی محض تیس سے پینتیس فیصد تک عسکری قوت اور صرف پینتیس فیصد زیرِ زمین سرنگیں ختم کر پایا ہے۔ جتنے مرتے ہیں ان سے کہیں زیادہ بھرتی ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
جو غلطی اسرائیل آج کر رہا ہے امریکا وہی غلطی پچاس برس پہلے ویتنام میں اور پچیس برس پہلے افغانستان میں کر چکا ہے۔ مگر اسرائیل کا خیال ہے کہ جہاں کوئی اور کامیاب نہیں ہو سکا وہ ضرور کامیاب ہو جائے گا۔
اسرائیل کے لیے بری خبر یہ ہے کہ تاریخ کا قبرستان ایسی ریاستوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنی ناقابلِ تسخیریت کے نشے میں اندھی اور بہری ہو کر مٹ گئیں اور اب سیاحوں میں نشانِ عبرت کے طور پر مقبول ہیں۔