پاکستان میں تحفظِ ماحولیات کی وزارت نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو کی دوسری وزارتِ عظمی میں قائم ہوئی۔ یہ قلمدان اتنا حساس سمجھا گیا کہ آصف علی زرداری کے سپرد کیا گیا۔ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی وزارت تھی۔
پاکستان پچھلے کم از کم دو عشروں سے ان دس ممالک کی سرخ فہرست میں شامل ہے جو دوہزار پچاس تک ماحولیات کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
پاکستان سن دو ہزار تیس تک عالمی درجہِ حرارت میں کمی کے اقدامات میں حصہ داری اور اپنی نصف آبادی کی انسانی ترقی کو بنیادی سطح سے اوپر لے جانے کے ہدف پر بھی کاربند ہے۔ یہ بھی خوش آیند ہے کہ موجودہ سرکار بلین ٹری سونامی کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے محدود وسائل میں جتنی کارکردگی دکھا سکتی ہے دکھا رہی ہے۔ پاکستان کی کم ازکم چالیس فیصد آبادی پر منڈلاتے ناکافی غدائیت یا بھک مری کے خطرے پر نگاہ رکھنے کے لیے فوڈ سیکیورٹی کی ایک علیحدہ وزارت بھی کام کر رہی ہے۔ مگر مذکورہ تمام اقدامات کا زور بالٹی میں وسائل کا پانی ڈالنے پر ہے لیکن رستے ہوئے پیندے کو درست کرنے پر کوئی توجہ نہیں۔ چلیے دانشوری جھٹک کے صاف صاف بات کی جائے۔
پاکستان کا رقبہ ایک سو ستانوے ملین ایکڑ ہے۔ آبادی لگ بھگ بائیس کروڑ ہے۔ آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح ڈھائی سے تین فیصد کے درمیان ہے۔ جب کہ معیشت کے حجم میں اضافے کی اوسط شرح گزشتہ دو برس اور کوویڈ کی وبا جوڑنے کے نتیجے میں شرح ِ آبادی میں اضافے سے بھی کم ہے۔ یعنی معیشت بڑھنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ آمدنی اخراجات کے مقابلے میں پہلے ہی کم تھی اب یہ فرق اور بڑھ رہا ہے۔
اس پر مستزاد اقوامِ متحدہ کے متعلقہ ذیلی اداروں کے یہ آنکڑے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو دو ہزار تیس تک پاکستان کی آبادی نہ صرف بائیس کروڑ سے بڑھ کر پچیس کروڑ تک پہنچ جائے گی بلکہ دیہی علاقوں میں روزگار کے مسلسل سکڑتے مواقعے کے سبب شہروں کی جانب ماحولیات اور زرعی زبوں حالی سے جوج رہے افراد کی نقلِ مکانی کے نتیجے میں شہری آبادی کا موجودہ تناسب چھتیس فیصد سے بڑھ کر پچاس فیصد سے بھی اوپر نکل جائے گا۔
مگر کہانی بس یہاں تک ہی محدود نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں ممکنہ منفی سماجی و سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں کا رخ بدلنے کی دو ہی تراکیب ہیں۔ یا آبادی میں اضافہ قابو میں لایا جائے یا خوراک اتنی میسر ہو کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا کم ازکم پیٹ ہی بھر جائے اور وہ توڑ پھوڑ یا نظام سے بغاوت کے بارے میں سوچنے سے فی الحال باز رہے۔
مگر یہ امکان بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ زرعی زمین اورپیداوار کا حجم بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔ اور آبادی کا دباؤ پہلے سے میسر زرعی زمین کو بھی رفتہ رفتہ کتر رہا ہے۔ یعنی ہم بڑھتی ہوئی آبادی کے ہمراہ بھک مری و مفلوک الحالی کی شاہراہ پر آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں اور اس سفرِ لاحاصل کو روکنے کا بھی کوئی قلیل یا طویل المدت اہتمام نظر نہیں آ رہا۔
ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے کس طرح کاٹ رہے ہیں؟ دو ہزار سولہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انیس سوپچھتر تا دو ہزار پندرہ کے درمیانی چالیس برس کے دوران صرف ضلع لاہور میں تقریباً تین لاکھ ایکڑ زرخیز زمین ڈھائی سو سرکاری و غیر سرکاری ہاؤسنگ اسکیموں میں بٹ بٹا گئی۔ اب یہ رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اوسطاً ہم روزانہ پانچ سو ایکڑ زرعی زمین سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس رفتار سے ہر دس برس میں ایک ملین ایکڑ زمین زرعی شعبے کے ہاتھ سے نکلتی چلی جائے گی۔
پچھلے ماہ ایک انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس برس میں ضلع حیدرآباد کی لگ بھگ سترہ ہزار ایکڑ زرخیز زرعی اراضی رہائشی اسکیموں میں بدل گئی۔ کم و بیش یہی تناسب ضلع بے نظیر آباد اور سکھر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
دسمبر دو ہزار بیس یعنی تین ماہ پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع پشاور میں ایک سو چھپن غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیاں دھڑلے سے پلاٹنگ کر رہی ہیں اور ان میں سے ستر فیصد ہاؤسنگ اسکیمیں بنجر کے بجائے سرسبز زرعی رقبے پر قائم ہو رہی ہیں۔
ضلع ملتان میں ہاؤسنگ اسکیموں کی قربان گاہ پر گزشتہ پانچ برس میں صرف آم کے ایک لاکھ سے زائد درخت قربان ہو گئے۔ ویسے تو وہاں بیسیوں قانونی و غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ مگر ان میں سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اب تک پانچ ہزار ایکڑ سے زائد زمین خریدی ہے جس پر آموں کے باغات اور دیگر نقد آور فصلیں لگائی جاتی تھیں۔
پنجاب اگرچہ پاکستان کے کل رقبے کا چھبیس فیصد ہے مگر اس رقبے میں پاکستان کی پچپن فیصد آبادی بستی ہے۔ چنانچہ اس آبادی کی رہائشی ضروریات اور بڑھتی ہوئی شہری مڈل کلاس کے فرمائشی نخرے اٹھانے کے لیے بڑے بڑے شہروں کے اردگرد کی آباد زرعی زمین ہی ہوس کا پہلا نشانہ بن رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی دو ہزار انیس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شہری پھیلاؤ کی رفتار تین فیصد سالانہ ہے۔ یہ رفتار جنوبی ایشیا میں سب سے تیز ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب سے ملتان، اور وسطی پنجاب میں بڑے ڈولپرز نے ہاتھ ڈالا ہے۔ پچیس سے تیس لاکھ روپے فی ایکڑ زرخیز زمین کی قیمت راتوں رات ایک سے دو کروڑ روپے کے درمیان جا پہنچی ہے۔ زمیندار کو زراعت میں زندگی کھپا کر، آڑھتی کے ہاتھوں یرغمال بن کر اور قرضے اتارتے اتارتے اور سرکاروں کا سوتیلی ماں جیسا روپ دیکھ دیکھ کر جو اذیت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے پیشِ نظر کون سا ایسا زمیندار ہوگا جو ایک ایکڑ زمین منہ مانگی تین گنا قیمت پر فروخت کرنے سے انکار کر دے۔ اس کے بعد اس کے کھیت یا باغ میں انسان بسے کہ بھوت۔ بیچنے والے کی بلا سے۔
انگلیوں پر ایسی بھی چند مثالیں ہیں کہ سو میں سے دس زمینداروں نے کسی بھی قیمت پر زمین فروخت نہ کرنے کی ٹھانی تو انھیں طاقتور ڈولپرز نے مختلف قانونی و غیر قانونی مصیبتوں میں پھنسا کر آمادہ کر ہی لیا۔
ریاست اور حکومت زرعی زمین کے وجود کو لاحق رہائشی اسکیموں کے خطرے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے۔ بیانات کی حد تک تو بہت سیریسں مگر عمل کی حد تک سیریسلی نان سیریس۔
سپریم کورٹ کئی فیصلوں میں آبزرویشن دے چکی ہے کہ رہائشی اسکیموں میں زرخیز زمین کا غائب ہوجانا قومی مستقبل کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان فروری دوہزار انیس میں پنجاب حکومت کو ہدایت دے چکے ہیں کہ کسی بھی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی یا اسکیم کو منظور نہ کیا جائے جو زرخیز زمین پر ہو۔ بلکہ رہائشی ضروریات کو کم علاقے میں بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں پورا کرنے پر توجہ دی جائے۔ مگر وزیرِ اعظم کی اس ہدایت کا بھی وہی نتیجہ نکلا جو اکثر ہدایات کا نکلا۔
بات یہ ہے کہ جس طرح نیشنل پارک کے قانون کے تحت خطرے سے دوچار وسیع علاقوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وقت کا تقاضا ہے کہ ایک پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور اسکیموں کے دائرے سے باہر نکال کر صرف زرعی سرگرمیوں کے لیے محفوظ کیا جائے۔ اور اس ایکٹ میں سخت تادیبی اقدامات بھی شامل کیے جائیں۔ صرف بنجر زمین کو کالونائیز کرنے کی اجازت ہو اور اس جانب راغب کرنے کے لیے ایک طے شدہ مدت میں کچھ اضافی مراعات دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
مگر ہر شعبے میں پھلتی پھولتی مافیا گردی بالخصوص کھربوں روپے کے زمینی و تعمیراتی کاروبار کے ہوتے ایسی تجاویز کا مقدر سوائے ذلت کے اکثر کچھ بھی نہیں۔ آیندہ نسل جانے اور اس کا مستقبل جانے۔ آج کے مزے کو اگلے کل پر قربان کیوں کیا جائے؟