پانچ جولائی دو ہزار انیس کو اسرائیل کے سرکردہ اخبار ہاریتز میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع ہوئی " نقبہ کی تدفین، اسرائیل کیسے منصوبہ بند انداز میں انیس سو اڑتالیس میں عرب آبادی کے جبری انخلا کے ثبوت مٹا رہا ہے "۔
اس رپورٹ نے مورخ برادری کو ہلا کے رکھ دیا اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ریاستیں اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنے کے لیے کس حد تک علمی بددیانتی کی پستی میں گر سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دو ہزار پندرہ میں ایک اسرائیلی محقق تمار نوویک کو اسرائیل کے قیام کے وقت قائم ہونے والی بائیں بازو کی سرکردہ جماعت مپام کی تاریخی دستاویزات کے زخیرے تک رسائی مل گئی۔ ایک کاغذ پڑھ کے تمار کا رنگ اڑ گیا۔
" صفید نامی قصبے کے نزدیک صفصاف گاؤں میں باون مردوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر خندق کے کنارے کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ ان میں سے دس ابھی تڑپ رہے تھے مگر انھیں بھی دفن کر دیا گیا۔ عورتیں اور بچے رحم کی درخواست کرتے ہوئے روتے رہ گئے۔ کل اکسٹھ لوگوں کو مارا گیا۔ تین خواتین ریپ ہوئیں۔ ایک چودہ برس کی مردہ لڑکی کی انگلی کاٹ کے انگوٹھی اتار لی گئی "
یہ تفصیل کس نے قلمبند کی؟ نامکمل دستاویز سے اس کا پتہ نہیں چلتا۔ مگر اس قتلِ عام کی تصدیق دیگر معروضی واقعات سے کی جا سکتی ہے۔ جیسے بالائی گلیلی کے صفصاف گاؤں پر انیس سو اڑتالیس کے آخری دنوں میں نوتشکیل اسرائیلی فوج کے ساتویں بریگیڈ نے قبضہ کیا اور پھر اسے موشاوو صفصفا کا نام دے کر یہودی آباد کار بسائے گئے۔ ساتویں بریگیڈ نے یہاں جو بھی زیادتیاں کیں ان کا اعلیٰ فوجی قیادت کو بروقت علم تھا۔ نیز اس علاقے میں متحرک آٹھویں اور نویں بریگیڈ نے بھی عرب نقل مکانی کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کے کارکردگی دکھائی۔
نقبہ پر تحقیق کرنے والے سرکردہ اسرائیلی مورخ بینی مورث نے بھی تصدیق کی کہ ہگانہ ملیشیا (جو بعدازاں اسرائیلی فوج میں ضم ہو گئی) کے کمانڈر اسرائیل گلیلی نے نومبر انیس سو اڑتالیس میں مپام پارٹی کے رہنما آہرون کوہن کو بتایا کہ صفصاف گاؤں میں کیا ہوا۔ مورخ تمار نووک نے جو دستاویز دیکھی وہ غالباً آہرون کوہن کے مرتب کردہ نوٹس ہی تھے۔ مگر کچھ عرصے بعد تمار دوبارہ دستاویزات دیکھنے آیا تو یہ نوٹس غائب تھے۔ جب تمار نے اس دستاویزی زخیرے کے انچارج سے ان نوٹس کی بابت پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وزارتِ دفاع کے کارندے یہاں سے کچھ دستاویزات اٹھا کر لے گئے ہیں اور اب یہ دستاویزات عام ملاحظے کے لیے دستیاب نہیں۔
اسرائیلی وزارتِ دفاع نے دو ہزار دو کے بعد سے قومی آرکائیوز کے زخائر کی چھان پھٹک شروع کی تاکہ اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق دستاویزات کو وزارتِ کی تحویل میں لے کر سربمہر کیا جا سکے۔
پھر دو ہزار نو میں اس چھان پھٹک کے دائرے میں نقبہ سے متعلق دستاویزات کو بھی شامل کر لیا گیا۔ حالانکہ ان میں سے کچھ تفصیلات برسوں پہلے کہیں نہ کہیں شایع بھی ہوتی رہیں۔ مگر اب ان تک رسائی ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔
یاہیل ہوروو دو ہزار سات میں وزارتِ دفاع سے ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے ہاریتز اخبار کو بتایا کہ انھوں نے ہی سن دو ہزار سے " قومی سلامتی سے متعلق تاریخی ریکارڈ کو سربمہر کرنے کے پروجیکٹ کی قیادت کی اور اس کام سے سات برس منسلک رہے۔ بقول یاہیل ایک الزام کی تب تک کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہوتی جب تک اس کے پیچھے مصدقہ دستاویزی ثبوت نہ ہوں اور وزارتِ دفاع یہ نہیں چاہتی کہ اس معاملے میں طے شدہ ریاستی بیانئے پر سوال اٹھے۔
نقبہ کے بارے میں اسرائیلی ریاست کا یہ موقف ہے کہ مقامی عرب رہنماؤں نے اپنے مفادات کی خاطر بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلا کر عرب آبادی کو خوف زدہ کر کے ہجرت پر آمادہ کیا۔ مگر جون انیس سو اڑتالیس میں اس وقت کے اسرائیلی خفیہ ادارے شائی (شن بیت کے پیشرو)کے ایک اعلیٰ اہلکار نے عرب ہجرت کے اسباب پر پچیس صفحے کی جو رپورٹ لکھی اس نے سرکاری بیانئے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
یہ رپورٹ درمیان میں کئی برس غائب رہی لیکن اب اسے ریلیز کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ستر فیصد عرب آبادی کو فوجی آپریشنز کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ ان آپریشنز میں فوج کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ مسلح یہودی ملیشیاوں (ارگون، لیہی، سٹیرن گینگ)نے بھی ہاتھ بٹایا۔ باقی تیس فیصد عرب قریبی دیہاتوں سے آنے والی تشویش ناک خبریں سن سن کر نکل بھاگے۔ جو تب بھی نہیں نکلے انھیں سنگین نتائج کی دھمکی دے کر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔
سن دو ہزار میں ایتزاک رابین ریسرچ سینٹر نے انیس سو اڑتالیس کے واقعات کے تناظر میں اس دور کے کئی فوجی افسروں سے انٹرویو ریکارڈ کیے۔ یہ انٹرویوز بھی بعد ازاں وزارت دفاع نے اپنی تحویل میں لے لیے۔ سابق برگیڈئیر آریا شالیو اور سابق میجر جنرل ایلاد پیلڈ نے اعتراف کیا کہ عرب آبادی کو بھگانے کے بعد ان کے گھروں کو مٹانا اس لیے ضروری تھا کہ وہ کچھ عرصے بعد واپس آنے کی کوشش نہ کریں۔ چنانچہ جو مرد اپنی عورتوں اور بچوں کو واپسی کے ارادے سے گھروں میں پیچھے چھوڑنا چاہتے تھے انھیں پورے کنبے کو ساتھ لے جانے پر مجبور کیا گیا۔
سابق میجر جنرل ایلاد پیلڈ نے یہ خوفناک اعتراف بھی کیا کہ بالائی گلیلی میں میری پلاٹون نے ساسا نامی گاؤں کے بیس گھروں کو نصف شب کے قریب دھماکا خیز مواد سے اڑایا۔ شاید اس وقت ان گھروں میں لوگ سو رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد بالائی گلیلی عرب آبادی سے تیزی سے خالی ہو گیا۔
ایک اور ریٹائرڈ میجر جنرل ایورام تامیر نے بتایا کہ جب وزیرِ اعظم بن گوریان کو اطلاعات ملیں کہ دریاِ اردن پار کرنے والے سیکڑوں مہاجرین دوبارہ اپنے دیہاتوں میں آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو پھر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ جتنے بھی خالی عرب دیہات ہیں ان سب کو اڑا دیا جائے۔ چنانچہ فوج کی انجینئرنگ بٹالینز نے بیشتر کام اگلے بہتر گھنٹے میں مکمل کر لیا۔
جب اسرائیل قائم ہوا تو جنوبی صحراِ نجف میں ایک لاکھ سے زائد عرب بدو ہزاروں برس سے آباد تھے۔ اگلے نو برس میں ان کی تعداد گھٹ کے تیرہ ہزار رہ گئی۔ یہ بدو کسی قیمت پر علاقہ چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ انھیں راضی کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان کے خیموں کو آگ لگائی جاتی رہی اور اونٹ اغوا ہونے لگے یا پھر ذبح ہونے لگے۔ المختصر موجودہ اسرائیل کی سرحدوں کے اندر سے انیس سو اڑتالیس تا پچاس کم ازکم ساڑھے سات لاکھ عرب نکال دیے گئے۔
انیس سو اٹھانوے میں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور شن بیت کی بہت سی پرانی دستاویزات کی پچاس برس کی میعاد مکمل ہو گئی۔ اس مدت کے بعد ان دستاویزات کو اسرائیلی قانون کے مطابق مورخوں کے مطالعے کے لیے کھول دیا جانا چاہیے تھا مگر خفیہ اداروں نے " قومی سلامتی کے تحفظ" کی خاطر ان دستاویزات کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے کابینہ سے مطالبہ کیا کہ ان دستاویزات کو عام کر نے کی مدت پچاس برس سے بڑھا کر ستر برس کر دی جائے۔ کابینہ نے یہ مدت بڑھا کر نوے برس کر دی۔ (قصہ ختم)