اسکول میں پڑھنے والا ہر بچہ جانتا ہے کہ کرہِ ارض ستر فیصد پانی اور تیس فیصد خشکی پر مشتمل ہے۔ سمندر میں صرف آبی حیات ہی نہیں ہوتی۔ سمندر دراصل خشکی پر رواں زندگی کی شہہ رگ ہے۔ وہ نہ صرف بارش عطا کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی تجارت کی باگ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایندھن، معدنیات اور خوراک سمیت کون سی ایسی شے ہے جو سمندر کے راستے ایک سے دوسری جگہ آسان اور سستے انداز میں نہیں پہنچائی جا سکتی۔
اسی لیے یونانی و فونیقی و رومی ادوار سے آج تک جتنی بھی سلطنت سازی ہوئی وہ سمندر کا احسان ہے۔ یعنی جس کے پاس سمندر کی کنجی تھی وہی عظیم سلطنت میں داخلے کا دروازہ کھول پایا۔ برطانوی سلطنت میں اگر سورج غروب نہ ہوتا تھا تو اس کا بنیادی سبب برطانوی بحری طاقت کا عروج تھا۔ صرف برطانیہ ہی کیا، پرتگال، اسپین، فرانس، ولندیز اور سلطنتِ عثمانیہ جیسی بڑی بڑی نوآبادیاتی قوتیں اپنے وقت سے آگے صرف اور صرف بحری طاقت کے بل بوتے پر تھیں۔ جیسے ہی بحری قوت کمزور پڑی سلطنت بھی ڈوبتی چلی گئی۔ آج سب سے بڑی بحری قوت امریکا ہے۔ اسی لیے وہ سپرپاور ہے۔
مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ پندھرویں اور سولہویں صدی کی سب سے بڑی عالمی بحری طاقت کوئی مغربی ملک نہیں بلکہ چین تھا۔ سن چودہ سو عیسوی میں منگ شہنشاہ ڑو ین ون کی سرکار ساڑھے تین ہزار تجارتی و عسکری جہازوں کی مالک تھی۔
ایک سو بیس میٹر طوالت کے نو مستولوں اور بارہ بادبانوں والے کئی منزلہ بحری جہاز اس بیڑے کا حصہ تھے۔ اپنے زمانے کے ان دیوہیکل جہازوں کی دیکھ بھال اور رواں رکھنے کے لیے فی جہاز لگ بھگ ڈیڑھ ہزار تربیت یافتہ افراد کی ضرورت رہتی تھی۔ (کولمبس جن جہازوں پر امریکا کی جانب گیا وہ صرف انیس میٹر طویل تھے)۔
ایک وقت میں ساڑھے تین سو چینی تجارتی جہازوں کا بیڑے کی صورت افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک آنا جانا ایک معمول تھا۔ مگر چودہ سو ستر میں شہنشاہ ڑو چو کے دور میں دور دراز بحری سفر محدود کرنے کا حکم جاری ہوا۔ اس پالیسی کو اگلے چار بادشاہوں نے برقرار رکھا اور پندرہ سو پچیس تک منگ خاندان کے شہنشاہ ڑو ہوکونگ کے زمانے میں بحری بیڑہ مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا یا جلا کے ختم کر دیا گیا۔
وجہ کیا تھی؟ اس بابت مورخ منقسم ہیں۔ کچھ کا نظریہ ہے کہ چونکہ چینی بادشاہت کی زیادہ تر توجہ منگولوں سے زمینی لڑائیوں کی جانب تھی لہٰذا انھوں نے بحری طاقت کو خزانے پر بوجھ جانا۔ کچھ مورخ کہتے ہیں کہ اس دور میں چین سمندر کے راستے جتنی تجارت کرتا تھا اس کی آمدنی کے مقابلے میں اتنے بڑے بیڑے کو برقرار رکھنے کے اخراجات کمر توڑ ثابت ہورہے تھے۔ اور وہ بھی ایسے وقت جب شاہی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ خشکی کی مہمات تھیں۔
البتہ پرنسٹن یونیورسٹی کے نوبیل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات اینگس ڈیٹن کا نظریہ یہ ہے کہ چین نے اپنا بحری بیڑہ دراصل بیرونی تجارت کے سبب لاحق ہونے والے خطرات کے پیشِ نظر نہ صرف اپنے ہی ہاتھوں ختم کر دیا بلکہ اس دور کا تجارتی ریکارڈ بھی جلا دیا گیا۔ کیونکہ دربار کی بیوروکریسی بادشاہ کے کان مسلسل بھرتی رہی کہ بیرونی تجارت کے ذریعے مالدار ہونے والا طبقہ جاگیردارانہ نظام کی بنیاد پر قائم سلطنت کی بقا کے لیے ایک مہلک خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس دیوانگی اور کم نگہی کی وجہ کچھ بھی رہی ہو چین اگلے ساڑھے پانچ سو برس کے لیے بحری دوڑ سے باہر نکل گیا۔ اس خلا کو پر کرتے ہوئے رفتہ رفتہ مغربی بحری طاقتوں اور جاپان نے چینی سلطنت کے ساحلی علاقوں پر اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے۔ افیون کی کھلم کھلا جبری درآمد کے ذریعے مغربیوں نے قوم کو سلا دیا اور شہنشاہیت کی آب و تاب کو بے اختیار کر دیا۔
پچھلے چالیس برس میں چین کی جو کایا کلپ ہوئی اس کے نتیجے میں چین کھلی عالمی منڈی کا مغربی دنیا سے بھی بڑا وکیل بن گیا۔ ان چار عشروں میں سمندر سے پانچ صدیوں بعد دوبارہ دوستی نے چین کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
کہاں منگ شہنشاہیت بیرونی تجارت کو سب سے بڑا بقائی خطرہ سمجھتی رہی اور کہاں موجودہ چینی صدر چن جن پنگ نے جنوری دو ہزار سترہ میں ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مغربی ممالک کو یوں سمجھایا،
" جو بھی سمندر سے مسلسل خائف رہتا ہے جلد یا بدیر اسی سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ لہٰذا آج کے چین نے عالمی تجارت کو گلے لگانے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عمل کے دوران ہمیں طوفانی لہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر ان مشکالات نے ہمیں بالاخر تیرنا سکھا دیا۔ آپ بھلے مانیں نہ مانیں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عالمی منڈی دراصل وہ بحرِ زحار ہے جس سے فرار ممکن نہیں "۔
چین کا دار و مدار بحرالکاہل سے کہیں زیادہ بحرِ ہند پر ہے۔ کیونکہ اسی سمندر کے کنارے دنیا کا پینسٹھ فیصد تیل اور پینتیس فیصد گیس کے دریافت شدہ ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اب آپ افریقہ کو براستہ مشرقِ وسطی اور بحرِ ہند چین سے جوڑنے والے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے پر غور کیجیے۔ یہ منصوبہ آج سے زیادہ کل کے چین کے لیے ہے۔
اس وقت چین کو امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے چہار رکنی اسٹرٹیجک اتحاد کا سامنا ہے۔ یہ چاروں بحری طاقتیں ہیں۔ فرض کریں کل یہ اتحاد نہ صرف چین کی بحری تجارتی شہہ رگ یعنی آبنائے ملاکا بلکہ آبنائے ہرمز اور عدن کی گذرگاہ پر بیٹھ جاتا ہے تو چینی تجارت کا کیا ہوگا؟ اب آپ چین سے وسطی و جنوبی و مغربی ایشیا سے گذر کے افریقہ تک پہنچنے والے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کی اہمیت پر دھیان دیں توآپ کو بحرہند کی نئی گریٹ گیم سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔
عظیم طاقت کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کی قیادت اپنی ایک تہائی سوچ حال کو بے حال ہونے سے بچانے میں صرف کرتی ہے اور دو تہائی سوچ مستقبل میں پیش آنے والے ممکنات کو پرکھ کر ان کے اعتبار سے پیشگی پالیسی سازی پر خرچ کرتی ہے۔ ہونی سے بڑا خطرہ انہونی ہے۔
امریکی ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز اسٹارویڈس کی کتاب "سی پاور" بحری عسکریت کے اداروں میں داخلِ نصاب ہے۔ اس میں سمندروں کی جو درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق بحرالکاہل امِ البحر ہے، بحیرہ روم وہ سمندر ہے جہاں بحری سبقت کے تصور نے سب سے پہلے جنم لیا، بحراوقیانوس نوآبادیات پر تسلط کا راستہ ہے اور بحیرہِ ہند سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے۔