اس دنیا میں بہت سے ویہلے لوگ ہیں جن کے پاس سوشل میڈیا پر ہر سیدھی بات کو جلیبی بنانے اور ہر ایک کے معاملے میں کیڑے نکالنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ ہوا میں مکے چلانے کے ان سائبر چیمپینز کو پچھلے ہفتے کوئی موضوع نہیں ملا تو سلطان آف ملتان قبلہ شاہ محمود قریشی کی چھتری کے پیچھے پڑ گئے۔
نہ چھتری ان نکتہ چینوں کی، نہ چھتری بردار خادم ان کا اور نہ یہ تنقیدیے شاہ محمود اور ان کے روحانی خانوادے سے واقف۔ بس ایک مسلسل گردان ہے کہ چھتری خود کیوں نہیں پکڑی جب کہ مہمان روسی وزیرِ خارجہ سرگئے لواروف نے اپنی چھتری خود تھامی ہوئی تھی، اپنی چھتری آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ پہلی بے محل بحث نہیں ہے۔ جب بھی ایسی کوئی تصویر شایع ہوتی ہے فوراً موازنا شروع ہو جاتا ہے ہمارے حکمران ایسا کیوں نہیں کرتے۔ دیکھو دیکھو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد لائن میں ٹرے پکڑے کھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے ہوتے ہیں سادہ حکمران۔ دیکھو دیکھو اوباما نے طیارے سے اترتے ہی اپنی چھتری عملے کے ایک بے چھتری اہلکار کے سر پے تان دی اور خود بارش میں بھیگتے ہوئے چلتے رہے۔
امریکا یونہی تو سپرپاور نہیں بنا۔ دیکھو دیکھو یورپ کے سب سے طاقت ور ملک جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل سپر مارکیٹ میں اپنی شاپنگ ٹرالی خود کھینچ رہی ہے اسے کہتے ہیں عوامی لیڈر۔ دیکھو دیکھو برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک موزے میں چھید نظر آ رہا ہے۔ اتنے بڑے ملک کا ایسا درویش وزیرِاعظم اللہ اللہ۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی وغیرہ وغیرہ…
بات شاہ محمود قریشی کی چھتری سے شروع ہو کے جانے کہاں پھسل گئی۔ محض اس تصویر کی بنیاد پر کہ کوئی شخص شاہ محمود کو بارش سے بچانے کے لیے چھتری تان کر پیچھے پیچھے چل رہا ہے نکتہ چینوں کو شاہ صاحب پر فرسٹریشن اتارنے کا ایک اور بہانہ مل گیا۔ حالانکہ ان ذہنی ہلکوں میں سے کوئی نہیں جانتا کہ وہ چھتری شاہ صاحب کی تھی یا ان کے سر پر تاننے والے کی؟ کیا وہ کوئی مرید تھا؟ کوئی خاندانی ملازم تھا؟ دفترِ خارجہ کا جونئیر اہلکار تھا؟ بے تکلف دوست تھا؟ خوشامدی تھا؟ کسی افلاطون کو ککھ نہیں پتہ۔ پھر بھی رائی کا پہاڑ بن گیا۔
یہ سب کیسے آسانی سے بھول گئے کہ گذرے ڈھائی برس میں شاہ محمود کی کم ازکم ایسی دو تصاویر شایع ہوئیں جن میں وہ بریف کیس تھامے اسلام آباد ایرپورٹ کے ڈیپارچر لاؤنج کی قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس ملک میں جتنی بقراطی کسی بھی ایک تصویر دیکھ کر جھاڑی جاتی ہے۔ اس سے کہیں مشکل کام تحقیق کر کے کوئی رائے قائم کرنا ہے۔ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ بنا تاریخی مطالعے اور سیاق و سباق دیکھے بغیر یہ فرض کر لینا نری زیادتی ہے کہ شاہ صاحب کا خود چھتری نہ پکڑنا دراصل خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی نفسیات ظاہر کرتا ہے۔
شاہ صاحب کا نسب حضرت شیح بہاؤ الدین زکریا سہروردی ملتانی اور شاہ رکنِ عالم سے ملتا ہے۔ دونوں بزرگ سرزمین ملتان پر سایہ فگن روحانی چھتری تھے اورہیں۔ ان بزرگوں کی ولائیت کی بنیادیں اہلِ اقتدار سے دوری اور محروم و مجبور عوام کی مالی و روحانی دستگیری میں گڑی ہوئی تھیں۔ مگر جب دور بدلتا ہے تو تقاضوں کی چھتری بھی بدل جاتی ہے۔
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ملتان کے سہروردی خانوادے کے پاس ایک مدت تک شیخ الاسلام کا منصب رہا۔ اس خاندان نے رنجیتی جارحیت کے خلاف نواب مظفر خان کا ساتھ دیا۔ مگر برطانوی دور میں ملتان اور گرد و نواح کے کم و بیش سب ہی روحانی خاندانوں کی سیاسی قبلہ جاتی ترجیحات بدل گئیں۔ اٹھارہ سو ستاون میں سلسلہِ سہروردیہ ملتان کے سربراہ شاہ محمود نے علاقے کو پرامن رکھنے اور سرکار کے باغی احمد خان کھرل کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا۔
لیپل گریفن کی شہرہِ آفاق کتاب پنجاب چیفس (روساِ پنجاب) کے مطابق " اٹھارہ سو ستاون میں مخدوم شاہ محمود نے بڑی اچھی خدمات انجام دیں اور کمشنر بہادر کو تمام ضروری واقعات سے مطلع کرتے رہے۔ ملتان میں بغاوت پر آمادہ رجمنٹوں سے ہتھیار لینے کے موقع پر آپ نے مع مریدین کمشنر بہادر کا ساتھ دیا۔ ان خدمات کے صلے میں تین ہزار روپے نقد انعام، سترہ سو اسی روپے مالیت کی ایک جاگیر، ساڑھے پانچ صد روپے مالیت کے آٹھ چاہات (کنوئیں) اور پھر اٹھارہ سو ساٹھ میں حضور وائسرائے بالقابا کی لاہور تشریف آوری کے موقع پر مخدوم صاحب کی ذاتِ خاص کے لیے مبلغ ڈیڑھ صد روپے سالانہ آمدنی والا باغ عطا ہوا "۔
سہیل وڑائچ کی تحقیق کے مطابق انیس سو انیس میں امرتسر کے جلیانوالا باغ کے قتلِ عام پر اٹھنے والے شور کے پیشِ نظر گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈائر سبکدوش ہونے لگے تو مخدومینِ ملتان، پاک پتن کے سجادہ نشین دیوان سعید محمد، گولڑہ شریف کے بابوجی غلام محی الدین سمیت پنجاب کے سرکردہ روحانی سیاسی خانوادوں نے خطہِ پنجاب کے لیے سر مائیکل کی گراں قدر خدمات کو خراِج تحسین پیش کرتے ہوئے بہ صد تشکر خطبہِ الوداعیہ نذر کیا۔
انیس سو چھیالیس کے انتخابات میں سجادہ نشین مخدوم مرید حسین قریشی اور ان کے بھتیجے میجر عاشق حسین قریشی مسلم لیگ کے مقابل یونینسٹ پارٹی کی چھتری اٹھائے ہوئے تھے۔ مگر ان انتخابات میں مسلم لیگ نے یونینسٹوں کا پنجاب میں تقریباً صفایا کر دیا۔ چنانچہ نباض مسلم یونیننسٹ جوق در جوق مسلم لیگ کی چھتری تلے آتے چلے گئے۔ یوں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینے والوں کی فہرست اور طویل ہو گئی۔
انھی مخدوم مرید حسین مدظلہہ کے صاحبزادے مخدوم سجاد حسین قریشی صوبائی اسمبلی کی رکنیت اور سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمین شپ سے ہوتے ہوئے بالآخر جونیجو دور میں تین برس گورنر پنجاب رہے۔ ان کی زندگی میں ہی خاندانی و روحانی وراثت کی باگ ڈور صاحبزادے مخدوم شاہ محمود قریشی کو بتدریج منتقل ہونی شروع ہوئی۔
مخدوم شاہ محمود قریشی ایچی سن اور کیمبرج کے گریجویٹ ہیں۔ البتہ بطور سجادہ نشین اپنی روحانی ذمے داریاں بھی کماحقہ ادا کرتے ہیں۔ آپ انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی نظام کے چھپرکھٹ تلے وجود میں آنے والی مسلم لیگ کے رکنِ صوبائی اسمبلی بنے اور وزیرِ اعلیٰ نواز شریف کی کابینہ میں بھی فعال وزیر رہے۔ جب وزیرِ اعظم محمد خاں جونیجو کی معزولی کے بعد جماعتی دھڑے بندی کے بطن سے مسلم لیگ ن وجود میں آئی تو ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و نواز۔
انیس سو ترانوے میں سلطان آف ملتان پیپلز پارٹی کے سائے میں آ گئے۔ آپ پی پی کے چوتھے دورِ حکومت میں یوسف رضا گیلانی کے وزیرِ خارجہ رہے۔ جب عمران خان نے نئے پاکستان کی چھتری کھولی تو آپ دو ہزار گیارہ میں پیپلزپارٹی کی جانب سے ناانصافی کے سبب تحریکِ انصاف کی چھتر چھایا میں آگئے اور بطور نائب صدر اور وزیرِ خارجہ اب تک پی ٹی آئی کی رسی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔
شاہ محمود بظاہر ایک خوش شکل، خوش علم و حلم، خوش لباس اور بہ باطن درویش فقیر ہیں۔ وہ عزیز حامد مدنی کے اس شعر کی تفسیر ہیں،
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہنِ چاک میں ہے
سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ محض تصویر دیکھ کر قیاسی گھوڑے دوڑا دینا اور پس منظر جانے بغیر سوشل میڈیا پر پھبتی بازی افسوسناک نشہ ہے۔ اس قباحت کے چھاتے تلے سے جتنی جلد باہر نکل آئیں اتنا ہی بہتر ہے۔ روحانیوں کے رمز دنیاوی کہاں سمجھ سکتے ہیں؟